الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
روزوں کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
19. باب صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ:
19. باب: عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2642
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، اخبرني عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: ان اهل الجاهلية كانوا يصومون يوم عاشوراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم صامه والمسلمون قبل ان يفترض رمضان، فلما افترض رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن عاشوراء يوم من ايام الله، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَهُ وَالْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ يُفْتَرَضَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عَاشُورَاءَ يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللَّهِ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ "،
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے لوگ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں نے بھی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس کا روزہ رکھا جب ر مضان کے روزے فرض ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاشورہ اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے تو جو چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل جاہلیت عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی رمضان کی فرضیت سے پہلے اس کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان فرض کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاشورہ ایام اللہ میں سے ایک دن ہے تو جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1126
   صحيح البخاري4501عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء لم يصمه
   صحيح البخاري1892عبد الله بن عمرصام النبي عاشوراء وأمر بصيامه لما فرض رمضان ترك
   صحيح البخاري2000عبد الله بن عمريوم عاشوراء إن شاء صام
   صحيح مسلم2647عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   صحيح مسلم2645عبد الله بن عمرمن أحب أن يصومه فليصمه من أحب أن يتركه فليتركه
   صحيح مسلم2644عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كره فليدعه
   صحيح مسلم2642عبد الله بن عمرعاشوراء يوم من أيام الله من شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن أبي داود2443عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن ابن ماجه1737عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كرهه فليدعه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1737  
´یوم عاشوراء کا روزہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1737]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ روزہ فر ض نہیں البتہ ثواب کا کا م ضرور ہے
(2)
جاہلیت کے جس کام کی تائید قرآن وحدیث سے ہو جائے وہ ہماری شریعت کا حکم بن جاتا ہے پھر اسے جاہلیت کا کام سمجھ کر نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور جس کام سے منع کر دیا جائے وہ با لکل حرام ہوتا ہے جس کام کے بارے میں حکم یا ممانعت کی دلیل نہ ملے اس سے اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے کاموں میں یہود و نصاری کی مخالفت کی ہے حتی کے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھ لیا کہ کفار کی مخالفت اسلام کا ایک اصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشوره ہوا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ناقوس بجانے اور آگ جلانے کی تجویز رد کر دی كہ یہ غیر مسلمو ں کا طر یقہ ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیے: (سنن ابن ماجة، الأذان، باب بدء الأذان، حدیث: 707)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1737   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2443  
´یوم عاشورہ (دسویں محرم) کے روزہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
فوائد ومسائل:
دن تو سارے ہی اللہ کے ہیں، مگر جن ایام میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو اور دینی و شرعی اعتبار سے ان کی اہمیت ہو، تو انہیں (أَيَّامَ ٱللَّهِ) کہا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2443   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2642  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایام اللہسے مراد وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں پر احسان و انعام فرمایا اس لیے سورہ ابراہیم میں فرمایا:
﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات سے تذکیرو نصیحت کیجئے۔
اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2642   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.