علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 600
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”ابواء“ یا ”ودان“ مقام پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انہیں واپس کر دیا اور فرمایا کہ ”ہم نے یہ اس لئے واپس کیا کہ ہم احرام والے ہیں۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 600]
600 لغوی تشریح:
«حِمَارًا وَّحْشِياً» اس سے مراد وحشی گدھے کا ایک ٹکڑا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”وحشی گدھے کا گوشت“ اور دوسری میں ہے:
”وحشی گدھے کا سرین“ اور تیسری روایت میں ہے:
”شکار کے گوشت میں سے ایک ٹکڑا۔“ ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، باب تحریم الصید للمحرم۔
«بِالَّابْوَاءِ» ”ہمزہ“ پر زبر اور ”با“ ساکن ہے۔ یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے مابین ایک پہاڑ کا نام ہے جس کے پاس ایک بستی آبا ہے اور وہ بستی بھی اسی کی طرف منسوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال اسی جگہ پر ہوا۔ اس کے اور جحفہ کے مابین بیس یا تیس میل کی مسافت ہے۔
«وَدَّان» ”واؤ“ پر زبر اور ”دال“ مشدد ہے۔ یہ ابواء کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
«حُرُمٌ» ”حا“ او ”را“ دونوں پر پیش ہے، یعنی ہم محرم ہیں۔
فائدہ:
یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت مطلق طور پر حرام ہے، خواہ اس کی اجازت یا اشارے وغیرہ سے شکار نہ بھی کیا گیا ہو جبکہ پہلی حدیث میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ شکار جب محرم کے لیے کیا گیا ہو، یعنی محرم کو شکار کا گوشت کھلانے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو اس کا کھانا بھی محرم کے لیے حرام ہے گو اس نے اس کا اشارہ وغیرہ نہ بھی کیا ہو کیونکہ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں مروی ہے کہ جب میں نے آپ سے عرض کیا کہ جناب یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرمایا۔ [سنن ابن ماجه، المناسك، حديث: 3093]
اسی طرح ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حالت احرام میں زمین کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے وہ شکار نہ کیا گیا ہو۔“ [جامع الترمذي، الحج باب ماجاء فى اكل الصيد للمحرم، حديث: 846]
جس سے معلوم ہوا کہ شکار جب محرم کے حکم سے یا اس کے اشارے وغیرہ سے کیا گیا ہو یا شکار محرم کی ضیافت کے لیے کیا گیا ہو تو اس کا کھانا ناجائز ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو محرم شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔
روای حدیث:
حضرت صعب رضی اللہ عنہ، ”صاد“ پر زبر اور ”عین“ ساکن ہے۔ والد کا نام جثامہ (”جیم“ پر زبر اور ”ثا“ مشدد) ہے۔ لیث قبیلے سے تھے۔ ودان اور ابواء میں رہتے تھے۔ ان کی حدیث حجازیوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کا قول ہے کہ خلاف عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 600