الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
39. باب اسْتِحْبَابِ الرَّمَلِ فِي الطَّوَافِ وَالْعُمْرَةِ وَفِي الطَّوَافِ الأَوَّلِ فِي الْحَجِّ:
39. باب: حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کا استحباب۔
Chapter: Raml (walking rapidly) is recommended in the Tawaf of Umrah, and in the first Tawaf of Hajj
حدیث نمبر: 3057
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن ابن ابي حسين ، عن ابي الطفيل ، قال: قلت لابن عباس : إن قومك يزعمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، رمل بالبيت، وبين الصفا، والمروة وهي سنة "، قال: صدقوا وكذبوا.وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَمَلَ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَهِيَ سُنَّةٌ "، قَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا.
ابن ابی حسین نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کی قوم کا خیال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ (کے طواف میں) اورصفا مروہ کے درمیان میں رمل کیا تھا، اور یہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے اور یہ سنت ہے، انہوں نے جواب دیا، انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی بولا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1264
   صحيح مسلم3057عامر بن واثلةرمل بالبيت وبين الصفا والمروة وهي سنة
   صحيح مسلم3055عامر بن واثلةيرملوا ثلاثا ويمشوا أربعا أخبرني عن الطواف بين الصفا والمروة راكبا أسنة هو فإن قومك يزعمون أنه سنة قال
   سنن أبي داود1889عامر بن واثلةاضطبع فاستلم وكبر ثم رمل ثلاثة أطواف وكانوا إذا بلغوا الركن اليماني وتغيبوا من قريش مشوا ثم يطلعون عليهم يرملون تقول قريش كأنهم الغزلان
   سنن أبي داود1885عامر بن واثلةارملوا بالبيت ثلاثا وليس بسنة قل
   سنن ابن ماجه2953عامر بن واثلةاستلموا الركن ورملوا والنبي معهم حتى إذا بلغوا الركن اليماني مشوا إلى الركن الأسود ثم رملوا حتى بلغوا الركن اليماني ثم مشوا إلى الركن الأسود ففعل ذلك ثلاث مرات ثم مشى الأربع
   مسندالحميدي505عامر بن واثلةإنما سعى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت وبين الصفا والمروة؛ ليري المشركين قوته
   مسندالحميدي521عامر بن واثلةأن رسول الله صلى الله عليه وسلم رمل بالبيت وبين الصفا والمروة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2953  
´بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا: کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنانچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2953]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔
اس میں شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ واپس چلے جائیں۔
اگلے سال مسلمان عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکے میں نہ ٹھریں۔

(2)
اس شرط کے مطابق دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی ذوالقعدہ 7ھ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرے کے لیے مکہ پہنچے۔ (فتح الباري: 627/7)

(3)
صحابہ کرام ؓنے طواف کے دوران میں بیت اللہ کے تین طرف رمل کیا اور چوتھی طرف عام رفتار سے چلے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ گھروں سے نکل کر کعبہ کے شمال میں جبل قعیقعان پر جا بیٹھے تھے۔
مسلمان کعبہ کے تین اطراف انھیں پھرتی سے دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے۔
چوتھی طرف مسلمان کعبہ شریف کی اوٹ میں ہوجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے۔

(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں پر ہر لحاظ سے اپنا رعب قائم رکھیں تاکہ کافر ان پر ظلم کرنے کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2953   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1885  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور یہ سنت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: لوگوں نے کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ اور غلط؟ فرمایا: انہوں نے یہ سچ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا لیکن یہ جھوٹ اور غلط کہا کہ رمل سنت ہے (واقعہ یہ ہے) کہ قریش نے حدیبیہ کے موقع پر کہا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑ دو وہ اونٹ کی موت خود ہی مر جائیں گے، پھر جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کر لی کہ آپ آئندہ سال آ کر حج کریں اور مکہ میں تین دن قیام کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور مشرکین بھی قعیقعان کی طرف سے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تین پھیروں میں رمل کرو، اور یہ سنت نہیں ہے ۱؎، میں نے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی اور یہ سنت ہے، وہ بولے: انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ؟ وہ بولے: یہ سچ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اپنے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی لیکن یہ جھوٹ اور غلط ہے کہ یہ سنت ہے، دراصل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہ جا رہے تھے اور نہ سرک رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی تاکہ لوگ آپ کی بات سنیں اور لوگ آپ کو دیکھیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1885]
1885. اردو حاشیہ: -1طواف قدوم میں پہلے تین چکروں میں کندھے ہلا ہلاکر آہستہ آہستہ دوڑنارمل کہلاتا ہے۔اور یہ ثابت شدہ سنت ہے۔طواف قدوم کے بعد کسی اور طواف میں یہ عمل ثابت نہیں۔ نیز عورتوں کےلئے رمل نہیں ہے۔
➋ رمل مشروع ہونے کی اصل بنا یہی ہے۔ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات میں بیان ہوئی ہے۔ مگر یہ کہنا کہ یہ سنت نہیں ہے۔محل نظر ہے یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ اورشاید اس سے ان کی مُراد سنت واجبہ کی نفی ہے۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عمل مسنون ومستحب ہے۔ اگر کسی سے یہ رہ جائے تو آخر کے چار چکروں میں اس کا تدارک کرناجائز نہیں ہے۔(نیل الاوطار)اگر یہ عمل وقتی ہوتا تو بعد کے عمروں اور حجۃ الوداع میں اس پر عمل نہ کیاجاتا۔عمرہ قضا سن 7 ہجری میں ہوا ہے۔جس میں رمل کی ابتداء ہوئی تھی۔ پھر سن آٹھ ہجری میں عمرہ جعرانہ میں بھی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے رمل کیا۔اور یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی روایت ہے۔جواوپر گزری ہے۔(حدیث 1884) بعد ازاں دس ہجری میں حجۃ الوداع میں بھی یہ عمل ثابت ہے۔اور سواری پر سوار ہوکرطواف وسعی بلاشبہ عذر پر ہی مبنی ہے۔ کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔دور نہ ہوتے تھے اور ان کو زور سے دور کرنا اور ہٹانا نبی کریم ﷺ کو پسند نہ تھا تو آپ سوار ہوگئے تاکہ آپ انہیں مناسک حج کی تعلیم دے سکیں۔ مسائل سمجھا سکیں اور لوگ بھی آپ کے عمل کامشاہدہ کرسکیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1885   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.