الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
82. باب تَحْرِيمِ مَكَّةَ وَصَيْدِهَا وَخَلاَهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ:
82. باب: مکہ مکرمہ کے حرم ہونے اور اس کے شکار اور گھاس اور درخت اور گری پڑی چیز کی حرمت کا بیان سوائے اس کے جو گری پڑی چیز کا اعلان کرنے والا ہو۔
حدیث نمبر: 3304
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي شريح العدوي ، انه قال: لعمرو بن سعيد، وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا، قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حين تكلم به، انه حمد الله واثنى عليه ثم قال: " إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر، ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا له: إن الله اذن لرسوله ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي فيها ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، وليبلغ الشاهد الغائب "، فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: انا اعلم بذلك منك يا ابا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم ولا فارا بخربة.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا، قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْح، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عمرو بن سعید سے جب وہ (ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلا ف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہا: اے امیر! مجھے اجا زت دیں۔میں آپ کو ایک ایسا فرمان بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمایا تھا۔اسے میرے دونوں کا نوں نے سنا، میرے دل نے یا د رکھا اور جب آپ نے اس کے الفا ظ بو لے تو میرے دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا۔ آپ نے اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "بلا شبہ مکہ کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے لوگوں نے نہیں۔۔کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یو آخرت پر ایما ن رکھتا ہو حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہا ئے اور نہ (یہ حلال ہے کہ) کسی درخت کو کا ٹے۔اگر کوئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑا ئی کی بنا پر رخصت نکا لے تو اسے کہہ دینا: بلا شبہ اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجا زت دی تھی تمھیں اس کی اجا زت نہیں دی تھی اور آج ہی اس کی حرمت اسی طرح واپس آگئی ہے جیسے کل اس کی حرمت موجود تھی اور جو حا ضر ہے (یہ بات) اس تک پہنچا دے جو حا ضر نہیں۔اس پر ابو شریح رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: (جواب میں) عمرو نے تم سے کیا گہا؟ (کہا:) اس نے جواب دیا: اے ابو شریح!میں یہ بات تم سے زیادہ جا نتا ہوں جرم کسی نافر مان (باغی) کو خون کر کے بھا گ آنے والے کو اور چوری کر کے فرار ہو نے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ (یزید کی طرف سے گورنر تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا، میں نے اپنے کانوں سے وہ فرمان سنا تھا، اور میرے دل و دماغ نے اسے یاد کر لیا تھا، اور جس وقت وہ فرمان آپ کی زبان مبارک سے صادر ہو رہا تھا، اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا تھا: مکہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے، اس کی حرمت یا احترام کا فیصلہ لوگوں نے نہیں کیا، اس لیے جو انسان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون ریزی کرے، اور وہ یہاں کے درختوں کو بھی نہ کاٹے، اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو سند بنا کر رخصت کا اپنے لیے جواز نکالے، تو اس کو کہہ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، اور تجھے اجازت نہیں دی ہے، اور مجھے بھی بس، اللہ تعالیٰ نے دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے (عارضی اور وقتی) اجازت دی تھی، اور آج اس وقت اس طرح حرمت لوٹ آئی جس طرح حرمت موجود تھی، (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جو لوگ یہاں موجود ہیں، (جنہوں نے میری بات سنی ہے) وہ دوسرے غیر موجود لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں تو ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دریافت کیا، آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس نے کہا کہ: اے ابو شریح! میں یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان کو پناہ نہیں دے سکتا، نہ ہی کسی ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے بھاگ آئے، یا کسی کا نقصان کر کے بھاگ آئے، پناہ دے سکتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1354
   صحيح البخاري4295خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري104خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري1832خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح مسلم3304خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   جامع الترمذي809خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   سنن النسائى الصغرى2879خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 809   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3304  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
خُرْبَةٌ يا خَرْبَةٌ کا اصل معنی اونٹ چرانا ہے،
اس سے مراد زمین میں چوری یا ڈاکہ سے فساد پھیلانا بھی مراد لیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل:

حرم کےاندر جنگ وجدال کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
اگر اہل مکہ کسی عادل حکمران کے خلاف بغاوت کردیں،
تو اس کے بارے میں دونظریات ہیں،
بقول امام ماوردی،
جمہور کے نزدیک،
جب تک لڑائی سے بچنا ممکن ہو،
لڑائی سے گریز کرتے ہوئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائےگا،
جس سے بغاوت کو فرو کیا جاسکے،
اگرلڑائی کے بغیر چارہ نہ رہے تو پھر باغیوں سے لڑائی لڑی جائے گی لیکن ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے،
جس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں جوجنگ میں شریک نہیں ہوتے،
باغیوں سے جنگ حقوق اللہ میں داخل ہے،
اور حقوق اللہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،
لیکن دوسروں کے نزدیک قتال کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
احادیث کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے۔
(فتح الباری ج4 ص 63)
اور حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی سمجھا تھا،
اس لیے ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن سعید کے جواب میں کہا تھا۔
(قد كنتُ شاهدًا وكنتَ غائبًا وقد أمرنا أن يبلغ شاهدُنا غائبنَا وقد بلغتُكَ) (میں حاضرتھا،
اور تم موجود نہیں تھے،
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہیں،
وہ ان تک بات پہنچا دیں،
جو حاضر نہیں ہیں،
اور میں نے تم تک یہ بات پہنچا دی ہے۔
)

(فتح الباری ج4 ص59)
حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد منشاء سمجھنے کے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں،
جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی،
اور جنھوں نے اس کا موقع اورمحل دیکھا۔

اس حدیث میں ہے جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے مکہ میں خون بہانا جائز نہیں ہے اور اللہ نے اپنے رسول کو کچھ وقت کے لیے قتال کی اجازت دی تھی،
اس سے جمہور نے یہ استدلال کیا ہے کہ مکہ جبروقوت سے فتح ہوا تھا،
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ پر احسان وکرم فرماتے ہوئے انہیں طُلَقَاء (آزاد)
قرار دیا،
ٰ اور ان کے اموال کو غنیمت کا مال نہ ٹھہرایا اور نہ ان کے اہل وعیال کوقیدی بنایا،
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکہ صلحاً فتح ہوا(سبل السلام ج2 ص 292)

اگر کوئی انسان حرم کے اندر قابل حد جرم کا ارتکاب کرتا ہے،
تو بالاتفاق اس پر حد جاری کی جائے گی،
لیکن اگر کوئی انسان حرم سے باہر جرم کا ارتکاب کر کے حرم میں پناہ لیتا ہے،
تو اس کے بارے میں اختلاف ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر حد قائم کی جائے گی،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرم کے اندرحد نہ لگائی جائےگی،
بلکہ اس کا معاشرتی مقاطعہ کر کے یا وعظ ونصیحت کر کے حرم سے باہر نکالا جائے گا اور خارج حرم،
حد قائم کی جائے گی،
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی پرزور انداز میں تائید کی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3304   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.