الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
2. باب طَلاَقِ الثَّلاَثِ:
2. باب: تین طلاقوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3675
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا سليمان بن حرب ، عن حماد بن زيد ، عن ايوب السختياني ، عن إبراهيم بن ميسرة ، عن طاوس : ان ابا الصهباء، قال لابن عباس : هات من هناتك " الم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر واحدة، فقال: قد كان ذلك، فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق، فاجازه عليهم ".وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ طَاوُسٍ : أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : هَاتِ مِنْ هَنَاتِكَ " أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً، فقَالَ: قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ ".
ابراہیم بن میسرہ نے طاوس سے روایت کی کہ ابوصبہاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ اپنے نوادر (جن سے اکثر لوگ بے خبر ہیں) فتووں میں سے کوئی چیز عنایت کریں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تین طلاقیں ایک نہیں تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: یقینا ایسے ہی تھا، اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو لوگوں نے پے در پے (غلط طریقے سے ایک ساتھ تین) طلاقیں دینا شروع کر دیں۔ تو انہوں نے اس بات کو ان پر لاگو کر دیا
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو صہباء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا، اپنی نئی چیزوں یا انوکھی چیزوں میں سے کوئی چیز بتائیں، کیا تین طلاقیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ایک شمار نہیں ہوتی تھیں تو انہوں نے فرمایا: ایسا ہی تھا۔ تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا تو لوگوں نے مسلسل طلاقیں دینا شروع کر دیں تو انہوں نے انہیں ان پر لاگو کر دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1472
   صحيح مسلم3675عبد الله بن عباسألم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله وأبي بكر واحدة فقال قد كان ذلك فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق فأجازه عليهم
   صحيح مسلم3673عبد الله بن عباسكان الطلاق على عهد رسول الله وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم
   صحيح مسلم3674عبد الله بن عباسكانت الثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر فقال ابن عباس نعم
   سنن أبي داود2199عبد الله بن عباسطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدة على عهد رسول الله و أبي بكر وصدرا من إمارة عمر فلما رأى الناس قد تتابعوا فيها قال أجيزوهن عليهم
   سنن أبي داود2200عبد الله بن عباسالثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر قال ابن عباس نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2199  
´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2199]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں (قبل ان يدخل بها) قبل ازمباشرت کا اضافہ منکر ہے۔
تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ ج؛11343) صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ انتہائی صریح اور صاف ہیں (كان الطلاق علي عهد رسول الله ﷺوابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب:ان الناس قداستعجلو في امر قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه عليهم فامضاه عليهم) (صحيح مسلم الطلاق حديث:١٤٧٤) رسول الله ﷺ کے زمانے میں عہد ابی بکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیںصایک ہی ہوا کرتی تھی تو عمر بن خطاب نے کہا:لوگ اس معاملہ (طلاق) میں جس میں انہیں مہلت حاصل تھی جلدی کرنے لگے ہیں۔
اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی) نافذ کردیں (تو بہتر رہے) چنانچہ انہوں نے اس کو نافذ کردیا۔
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کی کوئی قید نہیں۔
یہ نص ناقابل انکار ہے انتہائی محکم اور ثابت ہے منسوخ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کےبعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں اسی عمل ہوتا رہا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت اس کے بالمقابل کسی نص سے نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ قبل از نفاذ انہیں تردد واضطراب رہا تھا۔
اور مصر اور شام وغیرہ میں جب اس حکم کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے تو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیا ہےتو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیاہے۔
کاش کہ یہ لوگ اپنی عبادات ومعاملات میں سنت کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔
(ملحوظہ) مترجم عرض کرتا ہے برصغیر میں بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ اپنی ذاتی مصالح کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں نہ کہ اتباع سنت کی غرض سے۔
فإلی الله المشتكی
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2199   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3675  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طہر میں یا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا بدعت اور حرام ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول بھی یہی ہے،
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول بھی یہی ہے۔
(تکملہ:
ج1ص152۔
)

اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ناجائز نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے ایک طہر میں تین طلاقیں نہ دے،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کو ناجائز خیال کرتے تھے۔
(تکملہ فتح الملہم ج1ص152)
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر سزا بھی دیتے تھے (مجمع الانہر ص: 382)
پر لکھا ہے ابتدائی دور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور تک جب کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا تو انہیں ایک قرار دیا جاتا،
لیکن جب لوگوں میں بکثرت یہ کام ہونے لگا تو انھوں نے تہدید یعنی سرزنش اور توبیخ کے لیے ان کو تین ہی نافذ کر دیا،
اس سے معلوم ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کام ایک انتظامی تدبیر کی خاطر کیا تھا تاکہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں یہ کوئی مستقل اور ہمیشہ کے لیے فیصلہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کے مجاز تھے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس کو ایک عارضی اور وقتی حکم سمجھ کر قبول کر لیا،
جیسا کہ حج تمتع کے سلسلہ میں عام طور پر ان کے حکم کو قبول کر لیا گیا تھا۔
اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا تھا۔
(اغاثۃ اللفھان ص 181۔
162)


بیک وقت تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں تین چار نظریات یا اقوال ہیں۔
(1)
آئمہ اربعہ اور جمہور علماء کے نزدیک یہ تینوں واقع ہو جائیں گی۔
اگرچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق جائز اور لازم ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے قول کے مطابق حرام اور واقع ہے۔
(2)
بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے لیکن طلاق ایک ہی واقع ہوگی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب کا قول یہی ہے،
بعض صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ترجیح دی ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے۔
(3)
بعض معتزلہ اور بعض شیعہ کا یہ قول ہے کہ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ حجاج بن ارطاۃ ابن مقاتل اور محمد بن اسحاق کا قول یہی ہے لیکن (الفروع من الکافی)
جو شیعہ کی مستند کتاب ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں یہ ایک طلاق ہو گی۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین اور ان کے بیٹے جعفر سے یہی قول نقل کیا ہے (مجموع الفتاوی ج33ص709)
۔
(4)
چوتھا مؤقف یہ ہے عورت اگر مدخولہ ہے تو تین طلاقیں ہوں گی اور اگر غیر مدخولہ ہے تو ایک طلاق ہو گی تفصیل کے لیے دیکھئے ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل حافظ صلاح الدین یوسف۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3675   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.