الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
The Book of Transactions
6. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الْحَاضِرِ لِلْبَادِي:
6. باب: شہر والا باہر والے کا مال نہ بیچے۔
Chapter: The prohibition of the town-dweller selling on behalf of a bedouin
حدیث نمبر: 3825
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابن طاوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تتلقى الركبان، وان يبيع حاضر لباد ". قال: فقلت لابن عباس: ما قوله حاضر لباد، قال: لا يكن له سمسارا.وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، وَأَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ ". قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا قَوْلُهُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: لَا يَكُنْ لَهُ سِمْسَارًا.
طاوس کے بیٹے نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ باہر نکل کر قافلے والوں سے ملا جائے اور اس سے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی طرف سے بیع کرے۔ (طاوس نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے فرمان: "کوئی شہری دیہاتی کی طرف سے (بیع نہ کرے) " کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اس کا دلال نہ بنے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس سے کہ تجارتی قافلہ کو شہر سے باہر ملا جائے اور اس سے کہ شہری بدوی کے لیے بیع کرے۔ طاؤس کہتے ہیں، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، حاضر لَبادٍ
ترقیم فوادعبدالباقی: 1521
   صحيح البخاري2274عبد الله بن عباسيتلقى الركبان لا يبيع حاضر لباد
   صحيح البخاري2158عبد الله بن عباسلا تلقوا الركبان لا يبيع حاضر لباد
   صحيح مسلم3825عبد الله بن عباسأن تتلقى الركبان أن يبيع حاضر لباد
   سنن أبي داود3439عبد الله بن عباسنهى أن يبيع حاضر لباد
   سنن النسائى الصغرى4504عبد الله بن عباسيتلقى الركبان أن يبيع حاضر لباد
   سنن ابن ماجه2177عبد الله بن عباسنهى أن يبيع حاضر لباد
   بلوغ المرام674عبد الله بن عباس لا تلقوا الركبان ،‏‏‏‏ ولا يبيع حاضر لباد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2177  
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «حاضر لباد» کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2177]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس مسئلے کی تفصیل کے لیے حدیث: 2145 کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2177   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 674  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 674»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب هل يبيع حاضر لباد، حديث:2158، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الحاضرة للبادي، حديث:1521.»
تشریح:
راوئ حدیث: «حضرت طاوس رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اور نسب یوں ہے: طاوس بن کیسان حمیری۔
حمیر قبیلہ والوں کے مولا ہیں۔
فارسی النسل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ذکوان ہے اور طاوس ان کا لقب ہے۔
ثقہ ہیں۔
نہایت فاضل فقیہ ہیں اور تیسرے طبقے سے ہیں۔
ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: میرا گمان ہے کہ طاوس جنتی ہے۔
عمروبن دینار کا قول ہے: میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 674   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3825  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جنگلی اپنا مال فروخت کے لیے منڈی میں لاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنا مال فروخت کر کے چلا جاؤں اور اس سامان کی شہر والوں کو ضرورت ہے،
اس لیے مال فوراً بک جائے گا،
لیکن شہری اس کو کہتا ہے،
اپنا سامان میرے سپرد کر دو،
میں یہ مال موجودہ نرخ سے بعد میں مہنگا فروخت کر دوں گا،
اس طرح جو چیز شہریوں کو سستی مل سکتی تھی،
وہ بعد میں مہنگی ملے گی یا اس کا خطرہ ہو گا،
شوافع اور حنابلہ نے اس کی حرمت کے لیے چار شرطیں لگائی ہیں:
(1)
شہری خود پیشکش کرے کہ سامان کی فروخت کے لیے مجھے وکیل یا دلال بنا لو۔
(2)
جنگلی یا بدوی کو نرخ کا علم نہ ہو،
اگر بھاؤ کا پتہ ہو تو پھر حرام نہیں ہے۔
(3)
وہ سامان فوری فروخت کے لیے لایا ہو اور اس دن کے بھاؤ پر بیچنا چاہتا ہو۔
(4)
اس سامان کی لوگوں کو ضرورت ہو،
اور دیر سے بیچنے سے تنگی اور ضیق کا خطرہ ہو۔
اگر ان شروط کی موجودگی میں شہری بیچے گا تو یہ جرم اور گناہ ہے اور بیع صحیح ہے۔
اور احناف کا موقف یہ ہے اگر اس بیع سے شہریوں کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر یہ کام ناجائز ہے۔
لیکن بیع گناہ کے باوجود احناف،
شوافع اور مالکیہ کے نزدیک ہو جائے گی،
اور احناف کے نزدیک دیانتا فسخ ہونا چاہیے کیونکہ بیع مکروہ کا یہی حکم ہے،
امام ابن حزم کے نزدیک یہ بیع منعقد نہیں ہو گی اور امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے اور ایک قول دوسرے ائمہ کے مطابق ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے نزدیک شہری دلالی (اجرت)
لے کر فروخت کرے تو ناجائز ہے،
اگر بلا اجرت فروخت کرے تو جائز ہے کیونکہ یہ ہمدردی اور خیرخواہی ہے،
امام بخاری کا بھی یہی موقف ہے۔
لیکن جمہور کے نزدیک ہر صورت میں ممنوع ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3825   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.