● صحيح البخاري | 2496 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2213 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 6976 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2495 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح مسلم | 4129 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه |
● صحيح مسلم | 4128 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● جامع الترمذي | 1369 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● جامع الترمذي | 1312 | جابر بن عبد الله | من كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه |
● سنن أبي داود | 3514 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن أبي داود | 3513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن أبي داود | 3518 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● سنن النسائى الصغرى | 4709 | جابر بن عبد الله | الشفعة والجوار |
● سنن النسائى الصغرى | 4705 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● سنن النسائى الصغرى | 4650 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن ابن ماجه | 2499 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن ابن ماجه | 2494 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● المعجم الصغير للطبراني | 513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع |
● بلوغ المرام | 763 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● مسندالحميدي | 1309 | جابر بن عبد الله | أيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔
(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔
(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4128
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
شفعة:
شفع (جوڑا)
سے ماخوذ ہے،
ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملانا،
کیونکہ صاحب شفعہ،
حق شفعہ والی چیز کو اپنی ملکیت کی چیز کے ساتھ ملا لیتا ہے۔
فوائد ومسائل:
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک حق شفعہ کا تعلق صرف غیر منقولہ جائیداد سے ہے،
جیسا کہ حدیث میں،
زمین،
گھر،
اور باغ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے،
لیکن حافظ ابن حزم کے نزدیک ہر مشترکہ چیز میں ہے،
منقولہ ہو یا غیر منقولہ حق شفعہ ثابت ہے،
اور ائمہ حجاز (مالک،
شافعی،
احمد)
کے نزدیک حق شفعہ،
صرف حصہ دار کو حاصل ہے،
اگر حصہ دار نہیں ہے،
تو پھر حق شفعہ حاصل نہیں ہے،
اور جہاں چار کو حق شفعہ دیا گیا ہے،
وہاں مردار،
جار (پڑوسی)
شریک ہے،
وگرنہ الجار احق بسقبه،
کہ پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے یا جار الدار احق بدار الجار،
پڑوسی،
پڑوسی کے گھر کا زیادہ حقدار ہے،
کا معنی ہو گا کہ وہ حصہ دار سے بھی زیادہ حقدار ہے،
کیونکہ حصہ دار ضروری نہیں ہے،
پڑوسی ہو،
حالانکہ احناف کے نزدیک سب سے زیادہ حقدار،
حصہ دار ہے،
اس کے بعد خلیط یعنی مبیع کے حقوق میں شریک،
جو راستہ یا پانی میں شریک ہے،
آخر میں پڑوس کا درجہ ہے،
اور امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک پڑوسی،
قانونی رو سے تو حقدار نہیں ہے،
لیکن اخلاقی رو سے حق دار ہے،
اور الدين النصيحة،
دین ہمدردی اور خیرخواہی کے نام کا تقاضا یہی ہے۔
حجۃ اللہ،
ج 2،
ص 113)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4128