الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
وصیت کے احکام و مسائل
The Book of Wills
6. باب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شيء يُوصِي فِيهِ:
6. باب: جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 4234
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال عبد: اخبرنا، وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس ، قال: " لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال، فيهم عمر بن الخطاب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هلم اكتب لكم كتابا لا تضلون بعده، فقال عمر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله، فاختلف اهل البيت، فاختصموا، فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده، ومنهم من يقول ما قال عمر، فلما اكثروا اللغو والاختلاف عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قوموا "، قال عبيد الله: فكان ابن عباس، يقول: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّونَ بَعْدَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ، فَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا "، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا، گھر میں کچھ آدمی موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس آؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔" تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف اور درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس پر گھر کے افراد نے اختلاف کیا اور جھگڑ پڑے، ان میں سے کچھ کہہ رہے تھے: (لکھنے کا سامان) قریب لاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کتاب لکھ دیں تاکہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اور ان میں سے کچھ وہی کہہ رہے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زیادہ شور اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: یقینا مصیبت تھی بڑی مصیبت جو ان کے اختلاف اور شور کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وہ تحریر لکھنے کے درمیان حائل ہو گئی (کہ آپ کتابت نہ کرا سکے
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ پہنچا، اور گھر میں بہت سے افراد تھے، جن میں عمر بن خطاب بھی تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم حیران نہیں ہو گے، تو حضرت عمر ؓ کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہیں (اس لیے آپ کو لکھوانے کی زحمت نہیں دینی چاہیے) اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے (اس کی موجودگی میں ہم سرگرداں اور حیران نہیں ہوں گے) تو گھر والوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، وہ آپس میں جھگڑنے لگے، ان میں سے کوئی کہہ رہا تھا، مطلوبہ چیز مہیا کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھوا دیں، جس سے تم بعد میں پریشانی یا غلطی سے بچ سکو گے، اور ان میں سے بعض حضرت عمر کی ہمنوائی کر رہے تھے، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرین کا شور اور اختلاف بڑھ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ کہتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ کہتے تھے، مصیبت، مکمل مصیبت، ان کا وہ اختلاف اور شور ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادہ کے درمیان حائل ہوا، کہ آپ انہیں ایک تحریر لکھوا دیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1637
   صحيح البخاري3168عبد الله بن عباسائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4431عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4432عبد الله بن عباسهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاري7366عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاري3053عبد الله بن عباسائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري114عبد الله بن عباسقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلم4232عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلم4234عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلم4233عبد الله بن عباسائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4234  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رزيت،
مصیبت۔
(2)
لغظ،
شور شرابا۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ آپ بالترتیب خلفاء کی خلافت تحریر کروا دیتے،
تو بعد والے جو جھگڑے کھڑے ہوئے،
اور صحابہ میں جنگ تک نوبت پہنچی،
ہم اس سے بچ جاتے،
لیکن کبار صحابہ نے یہ سمجھا کہ دین کی تکمیل کے بعد،
کوئی نئی بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوانی نہیں ہے،
پہلی باتوں کی تاکید اور توثیق ہی ہو گی یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کیا،
آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں لکھوائیں گے اور اس کے بارے میں ہمارے اندر کوئی اختلاف نہیں،
کیونکہ اس کا آپ نے پہلے اظہار فرمایا تھا کہ اے عائشہ! ادعي لي اباك ابابكر و اخاك۔
میرے پاس اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ،
تاکہ میں انہیں ایک تحریر لکھ دوں،
کیونکہ مجھے خدشہ ہے،
کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا،
اور کہنے والا کہے گا،
میں زیادہ لائق اور حقدار ہوں،
اور اللہ اور مومن،
ابوبکر کے سوا کسی کو قبول نہیں کریں گے۔
(مسلم،
ج 2،
ص 273،
طبعہ قدیمی کتب خانہ،
کراچی۔
)

نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی شدید بیمار ہیں،
اس لیے آپ کو مزید تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے،
پھر آپ نے بھی تحریر پر اصرار نہیں فرمایا،
اگر لکھوانا ضروری ہوتا تو آپ کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے اور لکھوا کر رہتے،
جیسا کہ صلح حدیبیہ،
سب کی مخالفت کے علی الرغم،
کفار کی شروط پر ہی کر لی تھی،
نیز یہ واقعہ جمعرات کو پیش آیا،
اور آپ کی وفات سوموار کے دن ہوئی،
اگر تحریر ضروری ہوتی،
تو آپ نے ان دنوں اور وصیتیں کی ہیں،
بلکہ ہفتہ کے دن،
منبر پر بیٹھ کر خطاب بھی فرمایا ہے،
تو آپ ان دنوں میں لکھوا دیتے،
اور پھر عام طور پر مخاطب گھر کے افراد ہوتے ہیں،
تو حضرت علی آگے پیچھے یہ کام کروا سکتے تھے،
بلکہ مسند احمد میں تو ہے،
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا،
کہ میں ایک طبق لے کر آؤں،
جس پر آپ ایسی چیز لکھوا دیں،
جس کے بعد آپ کی امت سرگرداں نہیں ہو گی۔
(مسند احمد،
ج 1،
ص 90،
طبع بیروت)

بہرحال حضرت عمر نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کو تکلیف سے بچانے کے لیے کہی،
آپ کے حکم کا انکار مقصود نہیں تھا،
جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش نے آپ کے نام کے ساتھ،
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
لکھنے پر اعتراض کیا،
تو آپ نے حضرت علی سے فرمایا،
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
کا لفظ کاٹ کر،
محمد بن عبداللہ لکھ دو،
تو حضرت علی کہنے لگے،
والله لا امحوك ابدا،
اللہ کی قسم میں کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
کا لفظ نہیں مٹاؤں گا،
تو کیا یہ انکار تعظیم و محبت کی بنا پر تھا یا عناد و انکار کی خاطر،
اس لیے اس واقعہ کو صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کا ذریعہ بنانا،
صحابہ دشمنی کا شاخسانہ ہے،
وگرنہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4234   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.