الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
The Book of Judicial Decisions
8. باب نَقْضِ الأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ:
8. باب: غلط باتوں اور نئی باتوں کے ابطال کا بیان جو دین میں نکالی جائیں۔
حدیث نمبر: 4493
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد جميعا، عن ابي عامر، قال عبد، حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا عبد الله بن جعفر الزهري ، عن سعد بن إبراهيم ، " قال سالت القاسم بن محمد ، عن رجل له ثلاثة مساكن، فاوصى بثلث كل مسكن منها، قال: يجمع ذلك كله في مسكن واحد؟، ثم قال: اخبرتني عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد جميعا، عَنْ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ عَبْدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، " قَالَ سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ رَجُلٍ لَهُ ثَلَاثَةُ مَسَاكِنَ، فَأَوْصَى بِثُلُثِ كُلِّ مَسْكَنٍ مِنْهَا، قَالَ: يُجْمَعُ ذَلِكَ كُلُّهُ فِي مَسْكَنٍ وَاحِدٍ؟، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ".
عبداللہ بن جعفر زہری نے ہمیں سعد بن ابراہیم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے قاسم بن محمد سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس کے تین گھر ہیں اور اس نے ان میں سے ہر گھر کے ایک تہائی حصے کی وصیت کی ہے۔ انہوں نے جواب دیا۔ اس کے تہائی کو ایک گھر کی صورت میں جمع کر دیا جائے گا۔ پھر انہوں نے کہا: مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایسا عمل کیا، ہمارا دین جس کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے
سعد بن ابراہیم کہتے ہیں، میں نے قاسم بن محمد سے اس انسان کے بارے میں پوچھا، جس کے تین مکان ہیں تو اس نے ہر مکان میں سے تہائی حصہ کے بارے میں وصیت کی، انہوں نے جواب دیا، اس کی وصیت کو ایک مکان میں جمع کر دیا جائے گا، پھر مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے، وہ مردود ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1718
   صحيح البخاري2697عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد
   صحيح مسلم4493عائشة بنت عبد اللهمن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
   صحيح مسلم4492عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
   سنن أبي داود4606عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد
   سنن ابن ماجه14عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
   مشكوة المصابيح140عائشة بنت عبد اللهمن احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 140  
´بدعت کا رد`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رد» . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے دین اسلام میں کوئی نئی بات نکالی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 140]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 2697]،
[صحيح مسلم 4493]

فقہ الحدیث
➊ دین میں ہر وہ نئی بات جو قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں بدعت کہلاتی ہے اور گمراہی ہے۔
➋ ایک طویل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد میں حلقوں کی صورت میں کنکریوں پر سو دفعہ «الله أكبر»، سو دفعہ «لا إلٰه إلا الله» اور سو دفعہ «سبحان الله» پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حرکت سے منع کر دیا۔ دیکھئے: [سنن الدارمي ج1 ص286، 287 ح210 وسندہ صحیح]
↰ اس روایت کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے صحيح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [راه سنت ص 123]
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهو رد»
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔ [جزء من حديث لوين: 69 وسنده صحيح، شرح السنة للبغوي: 103، وسنده حسن]

تنبیہ:
حدیثِ «لُوَيْن» کا حوالہ المکتبة الشاملة سے لیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے: [جزء فيه من حديث لوين/مطبوع ح71 وسنده صحيح]
➍ جو شخص کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور ہر قسم کی بدعات سے دور رہتا ہے تو یہ شخص صراط مستقیم پر گامزن اور کامیاب ہے۔
➎ مشہور تابعی امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ [سنن الدارمي: 97 و سنده صحيح]
➏ تابعی عبداللہ بن فیروز الدیلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجھے پتا چلا ہے کہ دین کے خاتمے کی ابتدا ترک سنت سے ہو گی۔ [سنن الدارمي: 98 وسنده صحيح]
↰ یاد رہے کہ حجت ہونے کے لحاظ سے حدیث اور سنت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جیسا کہ سلف صالحین اور اصول حدیث سے ثابت ہے لہٰذا جو شخص صحیح حدیث کا تارک ہے وہ سنت کا بھی تارک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تارک سنت پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2154، وسنده حسن]
➐ جلیل القدر تابعی امام حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جو قوم بھی اپنے دین میں کوئی بدعت نکالتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان سے سنتیں اٹھا لیتا ہے، پھر وہ سنتیں قیامت تک ان کے پاس واپس نہیں آتیں۔ [سنن الدارمي: 99 وسندہ صحیح]
➑ مشہور جلیل القدر تابعی امام اور فقیہ ابوقلابہ عبداللہ بن زید الجرمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
بدعتی لوگ گمراہ ہیں اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔ [سنن الدارمي: 101، وسنده صحيح]
➒ یاد رہے کہ شریعت میں بدعات کا تعلق ان ایجادات سے ہے جن کا بغیر ادلہ شرعیہ کے دین میں اضافہ کیا گیا ہے، رہی دنیاوی ایجادات تو ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حدیث «أنتم أعلم بأمر دنياكم» تم دنیا کے معاملات زیادہ جانتے ہو۔ [صحيح مسلم: 2363، دارالسلام: 6128] کی رُو سے وہ تمام دنیاوی ایجادات جائز ہیں جن کے ذریعے سے شریعت پر کوئی زد نہیں آتی۔
➓ حمص شام کے تبع تابعین میں سے ثقہ امام ابوزرعہ یحییٰ بن ابی عمر السیبانی رحمہ اللہ (متوفی148ھ) فرماتے ہیں:
یہ کہا جاتا تھا کہ بدعتی کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا اور (دوسری بات یہ ہے کہ) بدعتی ایک بدعت چھوڑ کر اس سے زیادہ بری بدعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ [كتاب البدع والنهي عنها: 144، وسنده حسن]
◄ معلوم ہوا کہ اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت سے لوگوں کے سامنے توبہ کر لے تو پھر کافی عرصے تک اسے زیر نگرانی رکھنا چاہئیے، کیونکہ عام اہل بدعت کا یہی دستور ہے کہ وہ ایک بدعت سے نکل کر دوسری خطرناک بدعت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث14  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 14]
اردو حاشہ: (1) (فِيْ أَمْرِنَا)
سے مراد، دینی اور شرعی معاملات ہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ دین کیا ہے۔
دین کے جو معاملات عبادات یا عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اپنی رائے سے کمی بیشی کرنا بدعت کہلاتا ہے۔
اسی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحيح مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث: 867)
دنیوی معاملات، مثلا لباس کے مختلف انداز، کھانا پکانے کے علاقائی طریقے یا کاشت کاری کے جدید آلات کا استعمال ان کا شرعی بدعت سے تعلق نہیں۔
لیکن ان میں وہ کام بہرحال منع ہوں گے جو شریعت کے بیان کردہ عام اصولوں کے خلاف ہوں، مثلا ایسا لباس جو پردہ کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرے، یا غیر مسلموں کا لباس سمجھا جاتا ہو، وغیرہ
(2) (فَهُوَ رَدٌّ)
وہ ناقابل قبول ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے۔
یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا اور اس پر ثواب کے بجائے گناہ ہو گا۔

(3)
وہ کام، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے اجتناب فرمایا ہو۔
درآں حالیکہ آپ اس کی خواہش رکھتے ہوں، وہ بنیادی طور پر جائز ہوتا ہے، جب وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اسے انجام دینا بدعت میں شامل نہیں ہو گا۔
مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھانے سے اجتناب، تاکہ وہ فرض نہ ہو جائے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مجید کو ایک نسخہ کی صورت میں جمع نہ کرنا، کیونکہ ہر وقت نئی آیات نازل ہونے یا کسی پہلی آیت کے منسوخ ہونے کا امکان موجود تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو یہ امکان باقی نہ رہا، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر لیا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تروایح کا باجماعت اہتمام کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 14   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4606  
´سنت کی پیروی ضروری ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4606]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں دین کے لیے لفظ (أمرنا) استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ ہدایت کا سرچشمہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہی ہیں، اس لیے آپ کے ارشاد کے بغیر کوئی کام بھی اللہ کے ہاں عبادت یا تقریب کا درجہ نہیں پاسکتا۔


(فهو رد) وہ مردود ہے کے دو مفہوم میں، یعنی وہ کام باطل اور مردود ہے، نیز وہ آدمی جو اس کا مرتکب ہووہ بھی مردود اور قابل نفرین ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4606   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4493  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس دور میں گھر،
ایک قسم یا ایک انداز اور شکل کے ہوتے تھے،
اس لیے جب ایک تہائی کی وصیت کی اجازت دی گئی ہے تو وہ ایک گھر کے بارے میں ہونی چاہیے تھی تاکہ وارثوں کو ہر گھر سے ایک تہائی دینے کی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانی پڑے،
کیونکہ ایک جیسے گھروں میں ایک کا دینا،
لینے یا دینے والے میں سے کسی کے لیے بھی پریشانی کا باعث نہیں ہے اور دین میں جرح و تنگی نہیں ہے،
اس لیے انہوں نے حدیث سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھنا چاہیے،
اس حدیث سے مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت ہو گئی کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا،
حالانکہ اس کا سبب موجود تھا اور روکاوٹ بھی نہ تھی،
اس کو دین قرار دینا،
بدعت ہے،
اس لیے آج کل کی تمام بدعات،
جو دین کے نام سے کی جا رہی ہیں،
ان کی دین میں کوئی سند نہیں ہے،
کیونکہ،
ان کے اسباب موجود تھے اور موانعات موجود نہ تھے،
اس کے باوجود آپ نے نہیں کیے،
آپ کے دور میں لوگ مرتے تھے اور ان کو اہدائے ثواب کی ضرورت تھی،
لیکن اس کے باوجود،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ،
چہلم اور عرس وغیرہ نہیں کیے صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا،
نہ اذان میں انگوٹھے چومے اور نہ صلاۃ و سلام کے لیے کھڑے ہوئے،
نہ محفل میلاد کا انعقاد کیا اور نہ یہ کام خیر القرون میں کیے گئے اور نہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے وعظ کو دین بنایا،
یعنی اپنی اور ساتھیوں کی سہولت کے لیے یہ دن مقرر کیا،
لیکن کسی کو اس کی دعوت نہیں دی کہ تم بھی یہ کام جمعرات ہی کو کیا کرے،
دین تو تبھی بنتا ہے،
اگر اس کو شخصی و انفرادی کی بجائے اجتماعی اور عمومی بنایا جاتا اور سب کو اس کی دعوت دی جاتی اور اس تعیین کو کار ثواب قرار دیا جاتا،
اس لیے سوئم،
گیارہویں،
بارہویں اور چہلم وغیرہ کی دعوت دینا اور اس کو عمومی اور اجتماعی رنگ دینا بدعت ہے،
اگر اس تعیین کو لازم اور ضروری نہیں سمجھا جاتا،
تو پھر اس کی پابندی کیوں کی جاتی ہے اور اس کی دعوت کیوں دی جاتی ہے اور اس کو ایک مخصوص شکل کیوں دی گئی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4493   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.