الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
16. باب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ».
16. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہ جو مال ہم چھوڑ جائیں اس کا کوئی وارث نہیں بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 4582
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي . ح وحدثنا زهير بن حرب ، والحسن بن علي الحلواني ، قالا: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير : " ان عائشةزوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته: ان فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، سالت ابا بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يقسم لها ميراثها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم مما افاء الله عليه، فقال لها ابو بكر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة "، قال: وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة اشهر، وكانت فاطمة تسال ابا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر، وفدك وصدقته بالمدينة، فابى ابو بكر عليها ذلك، وقال: لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به، إلا عملت به، إني اخشى إن تركت شيئا من امره ان ازيغ، فاما صدقته بالمدينة، فدفعها عمر إلى علي، وعباس، فغلبه عليها علي، واما خيبر، وفدك فامسكهما عمر، وقال: هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، كانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وامرهما إلى من ولي الامر، قال: فهما على ذلك إلى اليوم.وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : " أَنَّ عَائِشَةَزَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ، إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ، فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَأَمَّا خَيْبَرُ، وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
4582. صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکے میں سے حصہ نکالیں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے دیا تھا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔ کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس مال میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر، فدک اور مدینہ میں صدقے کی صورت میں چھوڑا تھا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی یہ بات تسلیم نہ کی اور کہا: میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے، مگر میں بھی اسی پر عمل کروں گا۔ اگر میں نے آپ کے حکم میں سے کوئی چیز چھوڑی تو مجھے ڈر ہے کہ میں گمراہ ہو جاؤں گا۔ رہا آپ کا مدینہ والا صدقہ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کر دیا، اس پر (قبضے میں) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان پر غالب آ گئے، اور خیبر اور فدک کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے روک لیا اور کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا صدقہ ہے جو آپ کے ذمے آنے والے حقوق اور حوادث کے لیے تھا، ان دونوں کا معاملہ اسی کے سپرد رہے گا جو حکومت کا ذمہ دار ہو گا۔ کہا: وہ دونوں آج تک اسی حالت پر ہیں۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لوٹائے ہوئے مال سے جو کچھ چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا حصہ انہیں دیں تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس مال سے اپنا حصہ مانگتی تھیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر، فدک اور مدینہ میں اپنے صدقہ کی صورت میں چھوڑا تھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا، میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے، مگر میں اس پر عمل کروں گا، کیونکہ میں ڈرتا ہوں، اگر میں نے آپ کے کسی عمل کو چھوڑ دیا تو میں راہ راست سے کجی اختیار کروں گا، رہا آپ کا مدینہ والا صدقہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے حضرت علی اور عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے حوالہ کر دیا تھا اور اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غلبہ حاصل کر لیا تھا، رہا خیبر اور فدک والا حصہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان دونوں کو روک لیا اور کہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ صدقہ ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ حقوق اور اپنے حوادثات پر خرچ کرتے تھے اور یہ دونوں معاملات حکمران کی ذمہ داری ہیں اور وہ دونوں آج تک اس حالت پر برقرار ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1759
   صحيح البخاري6730عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري4241عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري4036عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري3712عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   صحيح البخاري6726عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح مسلم4582عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح مسلم4579عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   صحيح مسلم4580عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   سنن أبي داود2976عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   سنن أبي داود2968عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   سنن النسائى الصغرى4146عائشة بنت عبد اللهلا نورث
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم326عائشة بنت عبد اللهلا نورث، ما تركنا فهو صدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 326  
´حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بے حد احتیاط کرنی چاہئے`
«. . . انها قالت: إن ازواج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابى بكر الصديق فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركنا فهو صدقة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 326]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6730، ومسلم 1758/51، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہ حدیث ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 100، لقط اللآلي 26، اونظم المتناثر 272]
➋ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث کا علم سارے علماء کو ضرور بالضرور ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بعض علماء کو علم کے باوجود وہ حدیث یا دلیل اس وقت یاد نہ ہو پھر جب اس کی ضرورت پڑے یا کسی کے یاد دلانے سے یاد آ جائے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے پاس صرف یہی مال ہے، ۱ دودھ دینے والی اونٹنی، ۲ تلواریں پالش کرنے والا غلام۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ (دونوں) عمر کے حوالے کر دینا۔ جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، انہوں نے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ [طبقات ابن سعد 192/3، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بےحد احتیاط کرنی چاہئے تاکہ موت کے بعد ہونے والے مواخذے سے بچ جائیں۔ ہر آدمی کو روز محشر اس کا نامہ اعمال تھما دیا جائے گا جس میں ہر چھوٹا بڑا عمل تفصیل سے درج ہو گا۔
➍ شیعہ اسماء الرجال کی رو سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوعبدالله (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
«وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.» اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج 34 باب ثواب العالم والمتعلم ح 1، وسنده صحيح عندالشيعة]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 44   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2968  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2968]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
اور کوئی حکمران کسی کی خاطر بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام تبدیل نہیں کرسکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر مکمل طور پر مطمئین ہوگئے۔
ان کی طرف سے عدم اطمینان کا گمان بھی ان کی شان میں گستاخی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد جب ان اموال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد ان کی اولاد کو تفویض ہوا تو انہوں نے بھی بعینہ اسی طرح اس کا انتظام اور خرچ کیا۔
جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2968   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4582  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مدینہ والے صدقات کا انتظام کے سلسلہ میں حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما میں اختلاف رونما ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو دونوں میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تو وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے قدم پیچھے ہٹا لیا اور آہستہ آہستہ ان صدقات کی تولیت و انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چلا گیا،
لیکن فدک اور خیبر والا حصہ،
خلیفہ کے کنٹرول میں رہا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اسے اپنے دور حکومت میں اپنی اولاد کو نہیں دیا،
کیونکہ اس کو مسلمانوں کے مفادات اور حکومت و ریاست کی ضروریات پر خرچ کیا جاتا تھا،
بس یہی اس کے حقدار تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4582   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.