الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
51. باب كَرَاهَةِ الاِسْتِعَانَةِ فِي الْغَزْوِ بِكَافِرٍ:
51. باب: کافر سے جہاد میں مدد لینا منع ہے مگر ضرورت سے جائز ہے۔
حدیث نمبر: 4700
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن مالك . ح وحدثنيه ابو الطاهر واللفظ له، حدثني عبد الله بن وهب ، عن مالك بن انس ، عن الفضيل بن ابي عبد الله ، عن عبد الله بن نيار الاسلمي ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: " خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل بدر، فلما كان بحرة الوبرة ادركه رجل قد كان يذكر منه جراة ونجدة، ففرح اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حين راوه، فلما ادركه، قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: جئت لاتبعك واصيب معك، قال له: رسول الله صلى الله عليه وسلم: تؤمن بالله ورسوله؟، قال: لا، قال: فارجع فلن استعين بمشرك، قالت: ثم مضى حتى إذا كنا بالشجرة ادركه الرجل، فقال له: كما قال اول مرة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: كما قال اول مرة، قال: فارجع فلن استعين بمشرك، قال: ثم رجع فادركه بالبيداء، فقال له: كما قال اول مرة تؤمن بالله ورسوله؟، قال: نعم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: فانطلق ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ . ح وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ بَدْرٍ، فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجْدَةٌ، فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوْهُ، فَلَمَّا أَدْرَكَهُ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ وَأُصِيبَ مَعَكَ، قَالَ لَهُ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ، قَالَتْ: ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهُ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَيْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَانْطَلِقْ ".
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب نکلے، جب آپ وبرہ کے حرے پر پہنچے تو ایک آدمی آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ اس کی جراءت و بہادری کا بڑا چرچا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے دیکھا تو خوش ہوئے، جب وہ آپ کو ملا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ کا ساتھ دوں اور آپ کے ساتھ (غنیمت میں سے) حصہ وصول کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کیا تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو؟" اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ) کہا: پھر وہ چلا گیا، حتی کہ جب ہم درخت کے پاس پہنچے تو وہ آدمی (دوسری بار) آپ کو ملا اور آپ سے وہی بات کہی جو پہلی مرتبہ کہی تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے وہی کچھ کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "واپس ہو جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا۔" کہا: وہ واپس چلا گیا اور بیداء کے مقام پر آپ کو ملا تو آپ نے اس سے وہی بات پوچھی جو پہلی بار پوچھی تھی: "تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟" اس نے کہا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: "تو پھر (ہمارے ساتھ) چلو
حضرت عائشہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم حرة الوبره نامی مقام پر پہنچے، تو آپ کو ایک آدمی ملا، جس کی جراءت اور شجاعت و دلیری کا چرچا تھا، تو اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی خوش ہو گئے، جب وہ آپ کو ملا، تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کا ساتھ دوں اور آپ کو جو کچھ ملے، اس سے حصہ لوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا، تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہے؟ اس نے کہا، نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واپس چلا جا، میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا۔ حضرت عائشہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، پھر وہ چلا گیا، یا آپ چلتے رہے، حتیٰ کہ ہم شجرہ جگہ پر پہنچ گئے، وہ آدمی آپ کو ملا اور اس نے آپ سے وہی بات کہی، جو پہلی دفعہ کہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے پہلی ہی بات کہی، فرمایا: لوٹ جا، میں ہرگز مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔ پھر وہ لوٹ آیا اور آپ کو بیداء کے مقام پر ملا اور آپ نے اسے پہلی دفعہ والی بات کہی۔ تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا، جی ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: تو چل۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1817
   صحيح مسلم4700عائشة بنت عبد اللهجئت لأتبعك وأصيب معك قال له رسول الله تؤمن بالله ورسوله قال لا قال فارجع فلن أستعين بمشرك قالت ثم مضى حتى إذا كنا بالشجرة أدركه الرجل فقال له كما قال أول مرة فقال له النبي كما قال أول مرة قال فارجع فلن أستعين بمشرك قال ثم رجع فأدركه بالبيداء فقال له كما ق
   جامع الترمذي1558عائشة بنت عبد اللهألست تؤمن بالله ورسوله قال لا قال ارجع فلن أستعين بمشرك
   سنن أبي داود2732عائشة بنت عبد اللهلا نستعين بمشرك
   سنن ابن ماجه2832عائشة بنت عبد اللهلا نستعين بمشرك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2832  
´جنگ میں کفار و مشرکین سے مدد لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔‏‏‏‏ علی بن محمد نے اپنی روایت میں عبداللہ بن یزید یا زید کہا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2832]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمان اپنے عقیدے کے دفاع کے لیے جہاد کرتا ہے۔
مسلمانوں کے ملک کی زمین کا دفاع بھی اسی لیے اہم ہے کہ یہ دین کے دفاع کا ایک حصہ ہے۔
مشرک چونکہ اس عقیدے کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے وہ خلوص کے ساتھ اس کے دفاع کے لیے جنگ نہیں کرسکتا۔

(2)
غیر مسلم یا تو مسلمانوں کے کھلے دشمن ہوتے ہیں یا مسلمانوں کی حفاظت میں ہوتے ہیں۔
پہلی قسم کا مشرک (حربی)
اسلامی فوج میں شامل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسلامی فوج اس کے خلاف لڑتی ہے۔
دوسری قسم کا مشرک (ذمی)
مسلمانوں کی حفاظت میں ہوتا ہے۔
اور جس کی حفاظت مسلمان کرتے ہیں اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت اور دفاع کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2832   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2732  
´لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ مشرک ہو تو اس کو حصہ ملے گا یا نہیں؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مشرکوں میں سے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملا تاکہ آپ کے ساتھ مل کر لڑائی کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوٹ جاؤ، ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2732]
فوائد ومسائل:
جب مشرکین سے مدد نہیں لی جاتی تو غنیمت میں ان کاحصہ ہی بے معنی ہے۔
اور اسلامی سیاست کا بنیادی قاعدہ و اصول یہی ہے کہ مشرکین سے مدد نہ لی جائے۔
مگر حصب احوال ومصالح اگر کہیں اضطراری کیفیت ہوتو بمقابلہ کفار مدد لی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نہیں جیسا کہ سفر ہجرت میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن اریقط لیثی کی رہنمائی میں اپنا سفر مکمل فرمایا تھا۔
یہ مشرک تھا مگر قابل اعتماد تھا۔
ایسی کوئی صورت ہو تو انعام وغیرہ دیا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم دیکھئے۔
(نیل الأوطار، باب ماجاء في الاستعانة بالمشرکین:254/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2732   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4700  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر کافر مسلمانوں کے امیر کے احکام و ہدایات کی پابندی کرے اور مسلمانوں کے بارے میں اس کی رائے اچھی ہو،
اور اس سے اس کی جنگی مہارت کی وجہ سے مدد لینے کی ضرورت ہو اور وہ خود خواہش کا اظہار کرے تو اس سے مدد لینا جائز ہے،
لیکن اس کو غنیمت میں سے مقررہ حصہ نہیں ملے گا،
لیکن بطور عطیہ اور انعام اس کو کچھ دیا جائے گا۔
اور اگر اس سے مد (لینے کی ضرورت نہ ہو،
یا اس کے بارے میں خطرہ ہو کہ وہ فساد و خرابی کا باعث بنے گا،
تو پھر اس سے مدد نہیں لی جائے گی اور یہاں آپ نے انکار اس لیے فرمایا،
کہ آپ نے فراست نبوت سے یہ بھانپ لیا تھا،
وہ مسلمان ہو جائے گا،
یا یہ پہلی جنگ تھی اور آپ اس کی مدد کی ضرورت محسوس نہیں فرماتے تھے،
کیونکہ آپ مدینہ سے قافلہ پر حملہ کرنے کے لیے نکلے تھے،
ابھی لشکر سے مڈبھیڑ کا علم نہیں ہوا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4700   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.