حدثنا ابو نعيم الفضل بن دكين، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة،" ان خزاعة قتلوا رجلا من بني ليث عام فتح مكة بقتيل منهم قتلوه، فاخبر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فركب راحلته فخطب، فقال: إن الله حبس عن مكة القتل او الفيل، شك ابو عبد الله، كذا قال ابو نعيم: واجعلوه على الشك الفيل او القتل، وغيره يقول: الفيل، وسلط عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم والمؤمنين، الا وإنها لم تحل لاحد قبلي ولم تحل لاحد بعدي، الا وإنها حلت لي ساعة من نهار، الا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها، ولا يعضد شجرها، ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد، فمن قتل فهو بخير النظرين، إما ان يعقل وإما ان يقاد اهل القتيل، فجاء رجل من اهل اليمن، فقال: اكتب لي يا رسول الله، فقال: اكتبوا لابي فلان، فقال رجل من قريش: إلا الإذخر يا رسول الله، فإنا نجعله في بيوتنا وقبورنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلا الإذخر إلا الإذخر" قال ابو عبد الله: يقال يقاد بالقاف، فقيل لابي عبد الله: اي شيء كتب له، قال: كتب له هذه الخطبة.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ، وَغَيْرُهُ يَقُولُ: الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلُّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: اكْتُبُوا لِأَبِي فُلَانٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ إِلَّا الْإِذْخِرَ" قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يُقَالُ يُقَادُ بِالْقَافِ، فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّ شَيْءٍ كَتَبَ لَهُ، قَالَ: كَتَبَ لَهُ هَذِهِ الْخُطْبَةَ.
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے «القتل» اور «الفيل» کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ «الفيل» کہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمانوں کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔
Narrated Abu Huraira: In the year of the Conquest of Mecca, the tribe of Khuza`a killed a man from the tribe of Bani Laith in revenge for a killed person, belonging to them. They informed the Prophet about it. So he rode his Rahila (she-camel for riding) and addressed the people saying, "Allah held back the killing from Mecca. (The sub-narrator is in doubt whether the Prophet said "elephant or killing," as the Arabic words standing for these words have great similarity in shape), but He (Allah) let His Apostle and the believers over power the infidels of Mecca. Beware! (Mecca is a sanctuary) Verily! Fighting in Mecca was not permitted for anyone before me nor will it be permitted for anyone after me. It (war) in it was made legal for me for few hours or so on that day. No doubt it is at this moment a sanctuary, it is not allowed to uproot its thorny shrubs or to uproot its trees or to pick up its Luqat (fallen things) except by a person who will look for its owner (announce it publicly). And if somebody is killed, then his closest relative has the right to choose one of the two-- the blood money (Diyya) or retaliation having the killer killed. In the meantime a man from Yemen came and said, "O Allah's Apostle! Get that written for me." The Prophet ordered his companions to write that for him. Then a man from Quraish said, "Except Al-Idhkhir (a type of grass that has good smell) O Allah's Apostle, as we use it in our houses and graves." The Prophet said, "Except Al-Idhkhir i.e. Al-Idhkhir is allowed to be plucked."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 112
الله حبس عن مكة الفيل سلط عليهم رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي إنما أحلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما يودى
الله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين لا تحل لأحد كان قبلي أحلت لي ساعة من نهار لا تحل لأحد بعدي لا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقيد
لم تحل لأحد قبلي لم تحل لأحد بعدي إنها حلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد من قتل فهو بخير النظرين إما أن يعقل وإما أن يقاد أهل القتيل
الله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لن تحل لأحد بعدي إنها أحلت لي ساعة من النهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يخبط شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين
الله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لن تحل لأحد كان قبلي إنها أحلت لي ساعة من نهار إنها لن تحل لأحد بعدي فلا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقتل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں ` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .» ”. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]
تشریح: یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 112
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔“ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔)“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح: «حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔ «الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔ «وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔ «سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔ «لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔ «وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔ «سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔ «أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔ «قَتِيل» یعنی مقتول۔ «فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔ «بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔ «أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ»”اذخر کے سوا“ کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ”ہمزہ“ اور ”خا“ کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604