الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
41. باب مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
41. باب: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6145
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني جرير بن حازم ، عن ايوب السختياني ، عن محمد بن سيرين ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لم يكذب إبراهيم النبي عليه السلام قط، إلا ثلاث كذبات، ثنتين في ذات الله، قوله: إني سقيم سورة الصافات آية 89، وقوله: بل فعله كبيرهم هذا سورة الانبياء آية 63، وواحدة في شان سارة، فإنه قدم ارض جبار، ومعه سارة، وكانت احسن الناس، فقال لها: إن هذا الجبار إن يعلم انك امراتي، يغلبني عليك، فإن سالك، فاخبريه انك اختي، فإنك اختي في الإسلام، فإني لا اعلم في الارض مسلما غيري وغيرك، فلما دخل ارضه، رآها بعض اهل الجبار اتاه، فقال له: لقد قدم ارضك امراة، لا ينبغي لها ان تكون إلا لك، فارسل إليها، فاتي بها، فقام إبراهيم عليه السلام إلى الصلاة، فلما دخلت عليه، لم يتمالك ان بسط يده إليها، فقبضت يده قبضة شديدة، فقال لها: ادعي الله ان يطلق يدي، ولا اضرك، ففعلت، فعاد، فقبضت اشد من القبضة الاولى، فقال لها مثل ذلك، ففعلت، فعاد، فقبضت اشد من القبضتين الاوليين، فقال: ادعي الله ان يطلق يدي، فلك الله ان لا اضرك، ففعلت، واطلقت يده، ودعا الذي جاء بها، فقال له: إنك إنما اتيتني بشيطان، ولم تاتني بإنسان، فاخرجها من ارضي، واعطها هاجر، قال: فاقبلت تمشي، فلما رآها إبراهيم عليه السلام، انصرف، فقال لها: مهيم؟ قالت: خيرا، كف الله يد الفاجر، واخدم خادما "، قال ابو هريرة: فتلك امكم يا بني ماء السماء.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَام قَطُّ، إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ، ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللَّهِ، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَوَاحِدَةٌ فِي شَأْنِ سَارَةَ، فَإِنَّهُ قَدِمَ أَرْضَ جَبَّارٍ، وَمَعَهُ سَارَةُ، وَكَانَتْ أَحْسَنَ النَّاسِ، فَقَالَ لَهَا: إِنَّ هَذَا الْجَبَّارَ إِنْ يَعْلَمْ أَنَّكِ امْرَأَتِي، يَغْلِبْنِي عَلَيْكِ، فَإِنْ سَأَلَكِ، فَأَخْبِرِيهِ أَنَّكِ أُخْتِي، فَإِنَّكِ أُخْتِي فِي الْإِسْلَامِ، فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ مُسْلِمًا غَيْرِي وَغَيْرَكِ، فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَهُ، رَآهَا بَعْضُ أَهْلِ الْجَبَّارِ أَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: لَقَدْ قَدِمَ أَرْضَكَ امْرَأَةٌ، لَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَكُونَ إِلَّا لَكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَأُتِيَ بِهَا، فَقَامَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْه السَّلَام إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ، لَمْ يَتَمَالَكْ أَنْ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا، فَقُبِضَتْ يَدُهُ قَبْضَةً شَدِيدَةً، فَقَالَ لَهَا: ادْعِي اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي، وَلَا أَضُرُّكِ، فَفَعَلَتْ، فَعَادَ، فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَةِ الْأُولَى، فَقَالَ لَهَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَفَعَلَتْ، فَعَادَ، فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي، فَلَكِ اللَّهَ أَنْ لَا أَضُرَّكِ، فَفَعَلَتْ، وَأُطْلِقَتْ يَدُهُ، وَدَعَا الَّذِي جَاءَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: إِنَّكَ إِنَّمَا أَتَيْتَنِي بِشَيْطَانٍ، وَلَمْ تَأْتِنِي بِإِنْسَانٍ، فَأَخْرِجْهَا مِنْ أَرْضِي، وَأَعْطِهَا هَاجَرَ، قَالَ: فَأَقْبَلَتْ تَمْشِي، فَلَمَّا رَآهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، انْصَرَفَ، فَقَالَ لَهَا: مَهْيَمْ؟ قَالَتْ: خَيْرًا، كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْفَاجِرِ، وَأَخْدَمَ خَادِمًا "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر، تین دفعہ (بولا) (یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں، حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ یہ توریہ کی ایک شکل ہیں) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لئے تھے، ایک تو ان کا یہ قول کہ میں بیمار ہوں اور دوسرا یہ کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گاتیسرا جھوٹ سیدہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لئے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لئے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کی قلم رو (اس کے علاقہ) سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لئے) جب سیدہ سارہ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فوراً اس کا ہاتھ سوکھ گیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ اس نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، اللہ کی قسم اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تو نمازوں سے فارغ ہوئے اور کہا کیا ہوا؟ سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے تین دفعہ توریہ و تعریض کے سوا کبھی توریہ سے کام نہیں لیا، دو دفعہ اللہ کی خاطر، آپ کا کہنا، میں بیمار ہوں، (روحانی طور پر) بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے اور ایک بار حضرت سارہ کے معاملے میں، کیونکہ وہ ایک جابر حکمران کی زمین میں آئے اور حضرت سارہ ان کے ساتھ تھیں، جو بہت زیادہ حسین تھیں تو آپ نے اس سے کہا، اس جابر (سرکش) کو اگر یہ پتہ چل گیا تو میری بیوی ہے، تیرے سلسلہ میں مجھ پر غالب آ جائے گا، (تجھے مجھ سے چھین لے گا) تو اگر وہ تجھ سے دریافت کرے تو ا س کو کہہ دینا، تم میری بہن ہو، کیونکہ تم اسلامی بہن ہو، کیونکہ میں اس علاقہ میں تیرے اور اپنے سوا کسی مسلمان کو نہیں جانتا تو جب وہ اس کی سر زمین میں داخل ہو گئے۔ حضرت سارہ کو اس سرکش کے کسی کارندے نے دیکھ لیا اور اس کا پاس آ کر اسے کہا، تیرے علاقے میں ایک ایسی عورت آئی ہے، جو آپ ہی کے پاس ہونی چاہیے، سو اس نے اسے بلوا بھیجا، اسے لایا گیاتو حضرت ابراہیم علیہ السلام نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو جب وہ اس کے پاس پہنچیں، وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا او را سکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو ا سکا ہاتھ زور سے جکڑ لیا گیا تو اسے نے ان سے کہا، اللہ سے دعا کرو، وہ میرا ہاتھ آزاد کر دے اور میں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچاؤں گا، انہوں نے ایسا کیا، اس نے دوبارہ حرکت کی تو ا سکا ہاتھ پہلی دفعہ سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جکڑ لیا گیا، اس نے پھر پہلی بات کہی، انہوں نے دعا مانگی، اس نے پھر تیسری بار حرکت کی تو اس کا ہاتھ پھلی دو دفعہ سے زیادہ شدت سے جکڑ دیا گیا تو اس نے کہا، اللہ سے دعا کریں، میرا ہاتھ آزاد کر دے، اللہ گواہ یا ضامن ہے، میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچاؤں گا، انہوں نے دعا کی اور اس کا ہاتھ آزاد کر دیا گیا اور اس نے ان کو لانے والے کو بلوایا اور اسے کہا، تم میرے پاس کس جن کو لائے، میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، اس کو میرے علاقہ سے نکال دو اور اسے ہاجرہ دے دو، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، وہ چلتی ہوئی آئیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں دیکھا تو سلام پھیر دیا اور ان سے پوچھا، کیا واقعہ پیش آیا، انہوں نے کہا، اچھا ہوا، اللہ نے اس بدکار کے ہاتھ کو روک لیا اور اس نے ایک خادمہ دی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے عربو! اے خالص نسب والو! یہ تمہاری مائیں ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2371
   صحيح البخاري3358عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
   صحيح مسلم6145عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم النبي قط إلا ثلاث كذبات ثنتين في ذات الله قوله إني سقيم
   جامع الترمذي3166عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم في شيء قط إلا في ثلاث قوله إني سقيم ولم يكن سقيما قوله لسارة أختي قوله بل فعله كبيرهم هذا
   سنن أبي داود2212عبد الرحمن بن صخرإبراهيم لم يكذب قط إلا ثلاثا ثنتان في ذات الله قوله إني سقيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3166  
´سورۃ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا: میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا، آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3166]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مولف یہ حدیث ارشاد باری:
﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا﴾  (الأنبیاء: 64) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3166   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2212  
´آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2212]
فوائد ومسائل:
بیوی کو عادتا یا محبت واکرام میں بہن کہنا کسی ظرح روا نہیں لیکن کہیں کسی واقعی شرعی ضرورت سے توریہ کے طور پر کہے تو مباح ہے۔
جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معروف قصے میں وارد ہوا ہے۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اس حدیث کو بعض متجدد ناقابل تسلیم کہتے ہیں۔
بلکہ تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک عجمی سازش اور نہ معلوم کس کس لقب سے یاد کرتے ہیں ان کا انداز تحریر وگفتگو کچھ یوں ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے مقابلے میں احادیث کے راویوں کو یوں جھٹلا دینا اور ضعیف کہنا زیادہ بہتر اور آسان ہے کجا یہ کہ قرآن مجید کی تغلیط کی جائے۔
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بصراحت کہا ہےکہ (إِنَّه كانَ صدِّيقًا نَبِيًّا) (مريم:٤١) بلاشبہ وہ انتہائی سچے نبی تھے اس فکر کے حامل لوگوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید بھی تو ہمارے پاس ان راویوں کے ذریعے سے پہنچا ہے جن کے ذریعے سے احادیث پہنچی ہیں۔
حق وصداقت اور دیانت کے اعلٰی ترین معیار کے عدیم المثال اصول قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نقل وروایت کے سلسلے میں ایک ہی ہیں۔
جہاں جو فرق ہے وہ بصیرت اہل علم سے مخفی نہیں اور اس وجہ سے احادیث کو کئی درجات میں تقسیم کرکے ان کے حکم بھی الگ الگ بتائے گئے ہیں۔
اس حدیث کو قرآن مجید کے واقعتا خلاف کہنا دیانت علمی کے خلاف ہے۔
تفسیر احسن البیان (از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ) میں سے درج ذیل اقتباس پیش کر دینا مناسب ہے۔
حافظ صاحب موصوف سورۃالانبیاء کی آیت 63 (قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ) کے ذیل میں لکھتے ہیں (حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اقوال کو) یقینا حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا۔
گویا کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں۔
درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا۔
اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو۔
لیکن (چونکہ ان کا صدر وابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر جلیل القدر اور عظیم انسان سے ہوا لہذا) انہیں کذب سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصي اور غوي کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
حالانکہ خود قرآن ہی میں ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔
من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ٰظاہری قباحت کا پہلو ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا۔
بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا۔
لیکن ان کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا۔
مگر چونکہ مقصد ان کا تعریفیں اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار سے ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے۔
علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ میدان حشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے۔
درآں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے۔
مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہونگے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی۔
گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔
پھر لطف یہ ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے دو تو خود قرآن میں مذکور ہیں حدیث میں تو صرف ان کا حوالہ ہے۔
تیسری بات البتہ صرف حدیث میں مذکور ہے مگر جن حالات میں وہ بات کہی گئی ہےان حالات میں خود قرآن نے اظہار کفر تک اجازت دی ہے۔
پس اگر حدیث پر اعتاب اتارنا ہے تو پہلے یہ حضرات قرآن پر اعتاب اتاریں۔
اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کریں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2212   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6145  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
كذبات:
كذبة کی جمع ہے،
امام ابن انباری کا قول ہے،
کذب کی پانچ صورتیں ہیں۔
(1)
نقل کرنے والے نے جو بات سنی ہے،
اس کو تبدیل کر دیا اور یہی بات نقل و بیان کر دی،
جس کا پتہ نہیں ہے،
یہ شکل و قسم انسان کو گناہ گار بناتی ہے اور شرافت کو ختم کر دیتی ہے۔

چوک جانا،
غلطی کرنا،
عربوں کے کلام میں کذب کا یہ معنی بہت استعمال ہوا ہے۔
(3)
باطل ہونا خاک میں مل جانا،
کہتے ہیں،
كذب الرجل:
آدمی کی امید و رجا خاک میں مل گئی،
ناکام ہو گئی۔
(4)
کسی کو دھوکہ میں رکھنا۔
(5)
ایسی بات کہنا جو کذب کے مشابہ ہو،
لیکن اس سے مقصد صحیح ہو اور كذب ابراهيم ثلاث كذبات،
والی حدیث میں یہی معنی مراد ہے کہ انہوں نے جھوٹ کے مشابہ بات کہی،
جب کہ حقیقتاً تینوں حکم صادق تھے،
تاج العروس فصل الكاف من باب الباء،
گویا کذب کا لفظ توریہ و تعریض کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
(2)
اني سقيم:
میں بیمار ہوں،
انہوں نے جسمانی اور مادی بیماری سمجھی،
حالانکہ آپ کا مقصود روحانی بیماری تھا کہ میری روح تمہاری ان شرکیہ حرکتوں کی وجہ سے تڑپ رہی ہے اور میں تمہارے شرک کی بنا پر پریشان ہوں اور یہ نہی بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے خطرہ ہے،
اگر میں تمہارے ساتھ چلا گیا تو تمہاری شرکیہ حرکتوں دیکھ کر بیمار ہو جاؤں گا۔
(3)
بل فعله كبيرهم هذا:
کہ تم ان بتوں کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھتے ہو اور بڑے کرنی والے قرار دیتے ہو،
میں کہتا ہوں،
یہ کام اس بڑے نے کیا،
ان سے پوچھو تو سہی،
اگر یہ بولتے ہیں،
گویا یہ تهكم اور استھزاء کے طور پر کہا ہے،
جس طرح ایک بد خط اپنے ایک خوش نویس دوست سے،
ایک خوش خط تحریر کے بارے میں پوچھتا ہے،
یہ آپ نے لکھی ہے تو وہ جواب دے،
نہیں جناب یہ تو آپ ہی نے لکھی ہے،
مقصد یہ ہے،
یہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے،
یہ میں نے ہی لکھی ہے،
یعنی بظاہر جس چیز کی نفی کی ہے،
حقیقت میں اس کا اثبات کیا ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین كَذَبات کی نسبت کی گئی،
جبکہ قرآن مجید ابراہیم علیہ السلام کو صديقا نبيا کا معزز لقب دیتا ہے،
اس لیے بعض قدیم و جدید علماء نے اس متفق علیہ یعنی بخاری و مسلم کی روایت کا انکار کیا ہے،
حالانکہ یہ کذبات کا لفظ تو توریہ اور تعریض کے لیے استعمال ہوا اور توریہ و تعریض کا استعمال بالکل جائز ہے،
جس میں متکلم اپنی بات کا ایک ایسا مفہوم و معنی مراد لیتا ہے،
جو صحیح اور درست ہوتا ہے اور سامع اس کا دوسرا معنی لیتا ہے،
جس کی رو سے متکلم والا معنی درست نہیں ہوتا،
جیسا کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ام سلیم نے محسوس کیا،
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سارے دن کی محنت شاقہ کے بعد تھکے ہارے گھر آئیں گے،
انہیں ایسی صورت میں ان کے محبوب لخت جگر کی موت کی المناک اطلاع دینا مناسب نہیں ہے،
صبح جب آرام سے اٹھیں گے ان کو بتا دوں گی،
چنانچہ انہوں نے اپنے لخت جگر کو چارپائی پر لٹا کر اوپر چادر ڈال دی اور گھر کے ایک طرف اس کو رکھ دیا،
جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر آئے اور آتے ہی پوچھا،
بچہ کیسا ہے؟ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
هدأ نفسه وارجو ان يكون قد استراح،
اسے سکون آ گیا ہے اور مجھے امید ہے،
اس کی تکلیف کٹ گئی ہے،
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا بچے کو واقعی آرام آ گیا ہے،
اس کی بیماری کٹ گئی ہے،
حالانکہ حضرت ام سلیم کا مقصد یہ تھا،
بچہ فوت ہو گیا ہے،
اس لیے اس کی ہر قسم کی تکلیف اور بیماری ختم ہو گئی ہے تو حضرت ابو طلحہ کے اعتبار سے یہ معنی صحیح نہیں ہے،
جبکہ حضرت ام سلیم کے فہم و ذہن کی رو سے یہ معنی درست ہے،
اس کو تعریض کہتے ہیں۔
اور اس حدیث سے معلوم ہوا،
حضرت ابراہیم نے اپنی پوری زندگی میں،
توریہ اور تعریض سے بہت کم کام لیا ہے اور قیامت کے دن اس کو اپنی ایک کمزوری کے طور پر پیش کریں گے تو اس طرح یہ حدیث ان کی عظمت شان پر دلالت کرتی ہے یا ان کی توہین کرتی ہے؟ پہلے ایک غلط معنی لیا گیا اور پھر اس کی آڑ میں ایک صحیح حدیث کا انکار کر دیا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے،
حضرت سارہ کو اپنی بہن قرار دینے کا مشورہ اس لیے دیا کہ بہن تو بہرحال پرایا دھن ہے،
اس نے دوسرے گھر سدھارنا ہوتا ہے،
لیکن بیوی رفیقہ حیات ہے،
اس نے خاوند کے ساتھ رہنا ہوتا ہے،
اس لیے اگر وہ کہتی ہیں،
ابراہیم کی بیوی ہوں تو وہ راستہ صاف کرنے کے لیے،
حضرت ابراہیم کو راستہ سے ہٹانے کے لیے قتل کروا دیتا اور حضرت سارہ کے لیے اس کے چنگل سے نکلنے کی کوئی امید نہ رہتی،
اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام کے زندہ رہنے کی صورت میں،
وہ اس کی نجات و خلاصی کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرتے،
جیسا کہ یہاں فورا وہ نماز میں کھڑے ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے ہیں،
اس طرح ان کی زندگی بھی بچ گئی اور دعا کے نتیجہ میں میاں بیوی کی عزت و ناموس بھی بچ گئی،
جبکہ ایک خادمہ بھی مل گئی،
جب جابر حکمران نے دست درازی کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی دعا کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ شدت کے ساتھ جکڑ لیا گیا اور اس نے فورا دعا کی درخواست کی،
لیکن اس کی بدعہدی کی بنا پر اس کی پکڑ میں اضافہ ہوتا گیا،
حتیٰ کہ گھٹن کی بنا پر وہ ایڑیاں رگڑنے لگا اور حضرت سارہ کو اس کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہو گیا اور وہ ڈر گئیں کہ مجھے قاتلہ قرار دیا جائے گا،
اس لیے انہوں نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور آخر میں اس سے دعا کی درخواست کے باوجود شیطان یعنی بڑا سرکش جن قرار دیا،
کیونکہ یہ لوگ بڑے بڑے کارنامے جنوں کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان کی بہت تعظیم و توقیر کرتے تھے،
اس لیے اس نے ان کو خوش کرنے کے لیے بطور خادمہ اپنی لخت ہاجرہ پیش کی تاکہ حضرت سارہ کا غصہ فرو ہو جائے اور اس کو نقصان نہ پہنچائے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھے خیر الانام ص 237 تا 245)
عربوں کا نسب چونکہ خالص تھا یا ان کی گزر اوقات حیوانات پر تھی،
جو سبزہ کھا کر پلتے تھے اور سبزہ آسمانی بارش سے ہوتا تھا،
اس لیے ان کو ماء السماء کہا گیا اور بقول قاضی عیاض،
اس سے مراد انصاری لوگ ہیں اور ان کے جد امجد کو ماء السماء کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6145   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.