الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
26. بَابُ إِذَا لَمْ يُوجَدْ إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ:
26. باب: اگر میت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے۔
(26) Chapter. If there is nothing except one piece of cloth (for shrouding).
حدیث نمبر: 1275
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن ابيه إبراهيم،" ان عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه اتي بطعام وكان صائما , فقال: قتل مصعب بن عمير وهو خير مني كفن في بردة إن غطي راسه بدت رجلاه وإن غطي رجلاه بدا راسه، واراه قال: وقتل حمزة وهو خير مني ثم بسط لنا من الدنيا ما بسط او , قال: اعطينا من الدنيا ما اعطينا وقد خشينا ان تكون حسناتنا عجلت لنا، ثم جعل يبكي حتى ترك الطعام".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ إِبْرَاهِيمَ،" أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِطَعَامٍ وَكَانَ صَائِمًا , فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي كُفِّنَ فِي بُرْدَةٍ إِنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ وَإِنْ غُطِّيَ رِجْلَاهُ بَدَا رَأْسُهُ، وَأُرَاهُ قَالَ: وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْيَا مَا بُسِطَ أَوْ , قَالَ: أُعْطِينَا مِنَ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا، ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے ‘ انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے ‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آ سکی کہ اگر اس سے ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی (اسی طرح) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔

Narrated Ibrahim: Once a meal was brought to `Abdur-Rahman bin `Auf and he was fasting. He said, "Mustab bin `Umar was martyred and he was better than I and was shrouded in his Burd and when his head was covered with it, his legs became bare, and when his legs were covered his head got uncovered. Hamza was martyred and was better than I. Now the worldly wealth have been bestowed upon us (or said a similar thing). No doubt, I fear that the rewards of my deeds might have been given earlier in this world." Then he started weeping and left his food.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 365


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1275  
1275. حضرت ابراہیم ؑ سے مروی ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس کھانا لایا گیا جبکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت مصعب بن عمیر ؓ شہید کیے گئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ انھیں صرف ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا: حضرت حمزہ ؓ شہید کیےگئے، حالانکہ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے، پھر ہم پر دنیا کے دروازے کھول دیے گئے، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ پھر انھوں نے رونا شروع کردیا حتیٰ کہ کھانا چھوڑ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1275]
حدیث حاشیہ:
حضرت مصعب ؓ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ، وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔
انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاء کو ملے۔
ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔
وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1275   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1275  
1275. حضرت ابراہیم ؑ سے مروی ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس کھانا لایا گیا جبکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت مصعب بن عمیر ؓ شہید کیے گئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ انھیں صرف ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا: حضرت حمزہ ؓ شہید کیےگئے، حالانکہ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے، پھر ہم پر دنیا کے دروازے کھول دیے گئے، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ پھر انھوں نے رونا شروع کردیا حتیٰ کہ کھانا چھوڑ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1275]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخارى ؒ کی مراد یہ ہے کہ کفن کا انتظام و انصرام میت کے ترکے ہی سے کیا جائے، خواہ میت کا کل ترکہ اسی قدر ہو کہ جس سے کفن ہی کا بندوبست کیا جا سکے۔
اگر اس کے ترکے میں صرف ایک چادر ہو تو بھی اس سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ترکے میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی جس میں انہیں کفن دیا جا سکتا۔
حضرت حمزہ ؓ کے متعلق اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ ان کے ترکے میں بھی صرف ایک ہی چادر دستیاب ہو سکی اور وہ چادر بھی پورے جسم کے لیے ساتر نہ تھی بلکہ اس سے اگر سر ڈھانپا جاتا تو ان کے قدم ظاہر ہو جاتے اور جب قدم ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے پورے جسم کو ڈھانپنا ضروری نہیں، کیونکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ دوسرے ساتھیوں سے کپڑا لے کر ان کے قدموں کو ڈھانپ دیتے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
(2)
اس حدیث سے صحابہ کرام ؓ کی دنیا سے بے رغبتی، تقویٰ شعاری اور پرہیزگاری کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ جب شہید ہوئے تو ان کا ترکہ کچھ بھی نہ تھا، صرف بدن کی ایک چادر تھی وہ بھی تمام جسم کو نہ ڈھانپ سکتی تھی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بحالت روزہ تھے اور جب ان کے سامنے افطاری کے موقع پر طرح طرح کے کھانے پیش کیے گئے تو ان کے سامنے اپنے ساتھیوں کی زندگی کا نقشہ آ گیا اور اس قدر روئے کہ کھانا نہ کھا سکے اور اسے تناول کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔
اس میں ان لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے جو اپنی افطاریوں یا افطار پارٹیوں میں اسراف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1275   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.