الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
55. باب مِنْ فَضَائِلِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
55. باب: اویس قرنی رحمہ اللہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، ومحمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا، واللفظ لابن المثنى، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن اسير بن جابر ، قال: كان عمر بن الخطاب إذا اتى عليه امداد اهل اليمن سالهم، افيكم اويس بن عامر؟ حتى اتى على اويس، فقال: انت اويس بن عامر، قال: نعم، قال: من مراد ثم من قرن؟ قال: نعم، قال: فكان بك برص، فبرات منه إلا موضع درهم؟ قال: نعم، قال: لك والدة؟ قال: نعم، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ياتي عليكم اويس بن عامر مع امداد اهل اليمن من مراد ثم من قرن، كان به برص، فبرا منه إلا موضع درهم، له والدة هو بها بر لو اقسم على الله لابره، فإن استطعت ان يستغفر لك، فافعل فاستغفر لي، فاستغفر له، فقال له عمر: اين تريد؟ قال: الكوفة، قال: الا اكتب لك إلى عاملها؟ قال: اكون في غبراء الناس احب إلي، قال: فلما كان من العام المقبل حج رجل من اشرافهم، فوافق عمر فساله عن اويس، قال: تركته رث البيت قليل المتاع، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ياتي عليكم اويس بن عامر مع امداد اهل اليمن من مراد، ثم من قرن، كان به برص فبرا منه إلا موضع درهم، له والدة هو بها بر لو اقسم على الله لابره، فإن استطعت ان يستغفر لك فافعل، فاتى اويسا، فقال: استغفر لي، قال: انت احدث عهدا بسفر صالح، فاستغفر لي، قال: استغفر لي، قال: انت احدث عهدا بسفر صالح فاستغفر لي، قال: لقيت عمر، قال: نعم، فاستغفر له ففطن له الناس، فانطلق على وجهه، قال: اسير وكسوته بردة، فكان كلما رآه إنسان، قال: من اين لاويس هذه البردة ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ، أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ، فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَن؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ، فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَال: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ، فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ، فَافْعَلْ فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ، فَأَتَى أُوَيْسًا، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ: أُسَيْرٌ وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ ".
زرارہ بن اوفیٰ نے اُسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔ تو میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟ (وہ ایسے تھے کہ ایک مناسب چادر بھی ان کے پاس ہونا باعث تعجب تھا۔)
اسیر بن جابر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر ؓ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔ تو میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر ؓ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کےرئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر ؓ سے ملا تو سیدنا عمر ؓ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر ؓ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 2542

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6492  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يسخر باويس:
(وہ اویس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہ تھا)
اس لیے ان کا مذاق اڑاتا تھا،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
وہ لوگوں سے اپنے مقام و مرتبہ کو چھپاتے تھے اور گم نام ہو کر رہتے تھے۔
(2)
امداد:
اسلامی لشکر کی مددونصرت کو پہنچنے والی کمک،
مدد کی جمع ہے۔
(6)
غبراء الناس:
خاک نشینی،
فقیر و محتاج۔
(4)
رث البيت:
انتہائی سادہ،
اور شکستہ گھر۔
(5)
من اين للاويس:
اس قلاش اور محتاج کو کہاں سے مل گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6492   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.