الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
15. باب تَحْرِيمِ الظُّلْمِ:
15. باب: ظلم کرنا حرام ہے۔
Chapter: The Prohibition Of Oppression
حدیث نمبر: 6572
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن بهرام الدارمي ، حدثنا مروان يعني ابن محمد الدمشقي ، حدثنا سعيد بن عبد العزيز ، عن ربيعة بن يزيد ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما روى، عن الله تبارك وتعالى، انه قال: " يا عبادي: إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما، فلا تظالموا، يا عبادي: كلكم ضال إلا من هديته، فاستهدوني اهدكم، يا عبادي: كلكم جائع إلا من اطعمته، فاستطعموني اطعمكم، يا عبادي: كلكم عار إلا من كسوته، فاستكسوني اكسكم، يا عبادي: إنكم تخطئون بالليل والنهار وانا اغفر الذنوب جميعا، فاستغفروني اغفر لكم، يا عبادي: إنكم لن تبلغوا ضري، فتضروني ولن تبلغوا نفعي، فتنفعوني، يا عبادي: لو ان اولكم وآخركم، وإنسكم وجنكم، كانوا على اتقى قلب رجل واحد منكم، ما زاد ذلك في ملكي شيئا، يا عبادي: لو ان اولكم وآخركم، وإنسكم وجنكم، كانوا على افجر قلب رجل واحد، ما نقص ذلك من ملكي شيئا، يا عبادي: لو ان اولكم وآخركم، وإنسكم وجنكم، قاموا في صعيد واحد، فسالوني فاعطيت كل إنسان مسالته ما نقص ذلك مما عندي، إلا كما ينقص المخيط إذا ادخل البحر، يا عبادي: إنما هي اعمالكم احصيها لكم، ثم اوفيكم إياها فمن وجد خيرا فليحمد الله، ومن وجد غير ذلك فلا يلومن إلا نفسه "، قال سعيد: كان ابو إدريس الخولاني إذا حدث بهذا الحديث جثا على ركبتيه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَهْرَامَ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى، عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، أَنَّهُ قَالَ: " يَا عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، يَا عِبَادِي: كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ، يَا عِبَادِي: كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ، يَا عِبَادِي: كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ، يَا عِبَادِي: إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ، يَا عِبَادِي: إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّي، فَتَضُرُّونِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي، فَتَنْفَعُونِي، يَا عِبَادِي: لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِي: لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِي: لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي، إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، يَا عِبَادِي: إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ "، قَالَ سَعِيدٌ: كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ جَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ.
مروان بن محمد دمشقی نے کہا؛ ہمیں سعید بن عبدالعزیز نے ربیعہ بن یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو ادریس خولانی سے، انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی روایت بیان کی جو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہذا مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتا ہوں، سو مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ میرے بندو! تم کبھی مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھو گے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو، نہ کبھی مجھے فائدہ پہنچانے کے قابل ہو گے کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کر دوں تو اس سے جو میرے پاس ہے، اس میں اتنا بھی کم نہیں ہو گا جو اس سوئی سے (کم ہو گا) جو سمندر میں ڈالی (اور نکال لی) جائے۔" سعید نے کہا: ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔
سیدنا ابوذر ؓ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:"اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں راہ بتلاؤں پس تم مجھ سے راہنمائی طلب کرو میں تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے کپڑا مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم میرا نقصان نہیں کر سکتے اور نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں بڑا پرہیزگار شخص ہو تو میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گا اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سے سب سے بڑا بدکار شخص ہو تو میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو وہ مانگے دے دوں، تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو (تو دریا کا پانی جتنا کم ہو جاتا ہے اتنا بھی میرا خزانہ کم نہ ہو گا، اس لئے کہ دریا کتنا ہی بڑا ہو آخر محدود ہے اور میرا خزانہ بےانتہا ہے۔ پس یہ صرف مثال ہے)۔ اے میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں، پھر تمہیں ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے (کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی) اور جو برا بدلہ پائے تو اپنے تئیں برا سمجھے (کہ اس نے جیسا کیا ویسا پایا)۔ سعید نے کہا کہ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑتے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2577

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6572  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حرمت الظلم علي نفسي:
میں نے اپنے لیے یہ اصول اور ضابطہ بنا رکھا ہے کہ میں کسی پر ظلم (حق تلفی)
نہیں کروں گا۔
کیونکہ میں ظلم کرنے سے بہت بلند و بالا ہوں اور میں نے تمہیں بھی اس کا حکم دیا ہے،
کیونکہ تم مامور (حکم کے پابند)
ہو۔
(2)
ينقص المخيط:
جتنا سوئی کم کرتی ہے،
یعنی جس طرح سوئی سمندر کے پانی میں کوئی کمی نہیں کرتی اسی طرح میں ہر انسان کا مطالبہ پورا کر دوں تو میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور یہ بات محض تفہیم (سمجھانے)
کے لیے ہے،
وگرنہ سمندر کا پانی محدود ہے،
اس لیے اس میں کمی کا امکان ہے اور اللہ تعالیٰ کے خزانے لامحدود ہیں،
اس لیے ان میں کمی کا امکان نہیں ہے۔
(3)
مخيط:
سوئی۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہے،
انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے،
وہ اللہ کی توفیق اور عنایت سے ملتا ہے،
اپنی قوت و طاقت یا فہم و فراست کے بل بوتہ پر وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا،
اس لیے ہر چیز کی توفیق و عنایت کی درخواست یا اپیل اللہ ہی سے کرنا چاہیے،
اسباب و وسائل سے بالاتر ہو کر کسی اور سے درخواست کرنا اور مانگنا جائز نہیں ہے اور انسان کی نیکی و بدی،
یا خیروشر سے اللہ کے اقتدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کو نفع یا نقصان پہنچتا ہے،
انسان کی نیکی اور بدی کا اثر،
نفع یا نقصان اسی کو پہنچتا ہے اور اس کی کامیابی و ناکامی کا مدار اس کے اپنے ہی اعمال ہیں،
اگر نیک عمل قبول ہو گئے تو یہ اس کا فضل و کرم ہے اور اگر بداعمالیوں پر مواخذہ ہوا تو یہ اس کا عدل و انصاف ہے،
اس لیے انسان کو اپنے رویہ کا ہر وقت محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6572   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.