الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
68. بَابُ مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا:
68. باب: جو شخص ارض مقدس یا ایسی ہی کسی برکت والی جگہ دفن ہونے کا آرزو مند ہو۔
(68) Chapter. Whoever desired to be buried in the Sacred Land or something like it.
حدیث نمبر: 1339
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمود، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه , قال:" ارسل ملك الموت إلى موسى عليهما السلام، فلما جاءه صكه فرجع إلى ربه ,فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت، فرد الله عليه عينه , وقال: ارجع، فقل له يضع يده على متن ثور فله بكل ما غطت به يده بكل شعرة سنة، قال: اي رب، ثم ماذا؟ , قال: ثم الموت، قال: فالآن فسال الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلو كنت، ثم لاريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الاحمر".حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ , وَقَالَ: ارْجِعْ، فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا؟ , قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَوْ كُنْتُ، ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ".
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے ‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کر دی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آ جائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے تو ابھی کیوں نہ آ جائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کر دیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔

Narrated Abu Huraira: The angel of death was sent to Moses and when he went to him, Moses slapped him severely, spoiling one of his eyes. The angel went back to his Lord, and said, "You sent me to a slave who does not want to die." Allah restored his eye and said, "Go back and tell him (i.e. Moses) to place his hand over the back of an ox, for he will be allowed to live for a number of years equal to the number of hairs coming under his hand." (So the angel came to him and told him the same). Then Moses asked, "O my Lord! What will be then?" He said, "Death will be then." He said, "(Let it be) now." He asked Allah that He bring him near the Sacred Land at a distance of a stone's throw. Allah's Apostle (p.b.u.h) said, "Were I there I would show you the grave of Moses by the way near the red sand hill."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 423

   صحيح البخاري3407عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم ماذا قال ثم الموت قال فالآن قال فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدس
   صحيح البخاري1339عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6148عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6149عبد الرحمن بن صخرلو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   سنن النسائى الصغرى2091عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بكل ما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم مه قال الموت قال فالآن فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله فلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيفة همام بن منبه60عبد الرحمن بن صخرارجع إلى عبدي فقل له الحياة تريد فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما وارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال ثم مه قال ثم تموت قال فالآن من قريب قال رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1339  
´ملک الموت کا (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنا `
«... أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ...»
۔۔۔ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔۔۔

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے [1339، 3407]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148، 6149]
النسائي [سنن النسائي 4؍118، 119 ح2091]
ابن حبان [صحيح ابن حبان، الاحسان 8؍38 ح6223، پرانا نسخه: ح6190]
ابن ابي عاصم [السنة: 599]
البيهقي فى الاسماء والصفات [ص492]
البغوي فى شرح السنة [265/5، 266 ح 451 او قال: هذا حدهث متفق على صحته]
الطبري فى التاريخ [434/1 دوسرا نسخه 505/1]
الحاكم فى المستدرك [578/2 ح 4107 و قال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه]
وابوعوانه فى مسنده [اتحاف المهرة 15؍104]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍269، 315، 533]
عبدالرزاق فى المصنف [11؍274، 375 ح20530، 20531]
همام بن منبه [الصحيفة: 60]
اس حدیث کو سیدنا الامام ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بیان کیا ہے:
① همام بن منبه [البخاري: 3407 مختصراً، مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6149]
② طاؤس [البخاري: 1339، 3407 ومسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148]
③ عمار بن ابي عمار [أحمد 2؍533 ح10917 وسنده صحيح وصححه الحاكم على شرط مسلم 2؍578]
اس روايت كي دوسری سند کے لئے دیکھئے:
مسند أحمد [2؍351]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، اسے بخاری، مسلم، ابن حبان، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسیٰ علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكان موسيٰ غيورًا، فرأي فى داره رجلاً لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقءِ عينه التى فى الصورة التى يتصور بها، لا الصورة التى خلقه الله عليها»
اور موسیٰ (علیہ السلام) غیور تھے۔ پس انہوں نے اپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا مار دیا۔ یہ مکا اس (فرشتے) کی (انسانی صورت والی) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس (اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا، اس پر یہ مکا نہیں لگا۔ إلخ [الاحسان، نسخه محققه 14؍115]
◈ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ [ديكهئے شرح السنة 5؍266۔ 268]
◈ اور فرمایا کہ: یہ مفہوم ابوسلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں، اللہ ان (گمراہوں) کو ہلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔ [شرح السنة 5؍268]
↰ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے، لہٰذا انہوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاہتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» [63-المنافقون:11] اللہ تعالیٰ ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے۔ کے خلاف نہیں ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 12   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1339  
1339. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار!پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1339]
حدیث حاشیہ:
بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1339  
1339. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار!پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1339]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے عنوان میں نحوها کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد باقی ماندہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہے، مثلا:
حرم مکہ اور حرم مدینہ وغیرہ اور ایسے ہی مدافن انبیاء اور قبور اولیاء و شہداء ہیں، ان کے قرب و جوار سے رحمت و برکت کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی اقتدا ہے۔
(فتح الباري: 264/3)
ہمارے نزدیک جہاں تک ارض مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا ہے، یہ تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔
سیدنا عمر ؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا:
اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ)
میں آئے۔
(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1890)
لیکن مدافن شہداء اور مقابر اولیاء کے قرب و جوار میں رحمت و برکت کی امید کرتے ہوئے دفن ہونے کی تمنا کرنا اس سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک و بدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔
ہمارے نزدیک اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان، پھر علم و عمل صالح نہایت ضروری ہے۔
ان کے بغیر کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بےکار ہے۔
حدیث میں ہے کہ جب دجال آئے گا تو مدینہ منورہ منافقین سے بھرا ہو گا اور اسے تین جھٹکے لگیں گے جس سے تمام کافر اور منافق مدینے سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔
(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1881 و صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7390(2943) (2)
اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بقعہ مبارکہ (بابرکت جگہ)
کی حرمت و تقدیس ایمان و عمل کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہو گی۔
ان کے بغیر ارض مقدس یا غیر ارض مقدس میں دفن ہونا برابر ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو خط لکھا کہ آپ ہماری ارض مقدس میں آ جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سرزمین انسان کی پاکیزگی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، بلکہ نیک عمل انسان کو ضرور مقدس بنا دیتا ہے۔
(الموطأ للإمام مالك، الوصیة، حدیث: 1524)
لیکن ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ کسی بھی ارض مقدس میں دفن ہونے کی خواہش کرنا مطلوب عین ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس فرق کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔
اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت ہی جلیل القدر اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کے عمل اور تمنا کو پیش کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس خواہش کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ انہیں حضرات انبیاء کا قرب حاصل ہو جائے جو بیت المقدس میں مدفون ہیں۔
اس رائے کو قاضی عیاض نے ترجیح دی ہے۔
البتہ علامہ مہلب نے فرمایا ہے کہ آپ نے جوار انبیاء میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدان حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمین شام ہی نے میدان محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔
(فتح الباري: 264/3) (3)
حافظ ابن حجر ؒ نے پتھر پھینکے کی قدر مسافت کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ وہاں کھڑے ہو کر اگر پتھر پھینکا جائے تو ارض مقدس میں جا گرے، اس کا راز یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا تھا اور انہیں وادی تیہ میں چالیس سال تک بھٹکنے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
اسی دوران میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کی وفات ہوئی۔
چونکہ غلبہ جبارین کی وجہ سے ارض مقدس میں نہ جا سکے تھے، اس لیے آخر وقت تمنا کی کہ جتنا بھی ارض مقدس کے قریب ہو سکیں غنیمت ہے، کیونکہ قریب شے کا حکم بھی عین چیز کا حکم ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 264/3) (4)
حضرت موسیٰ ؑ کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑ دینے پر منکرین اور ملحدین کے جو اعتراضات ہیں انہیں ہم حدیث: 3407 کے فوائد میں ذکر کریں گے اور وہاں ان کا شافی جواب بھی دیا جائے گا۔
بإذن الله۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے پیش نظر مترجم کی مناجات حسب ذیل ہے:
آرزو ہے دل میں مجھے نصیب کب وہ دن ہو... مروں میں مدینے میں اور بقیع میرا مدفن ہو
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.