الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام
Characteristics of The Hypocrites And Rulings Concerning Them
1. باب صِفَّاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ
1. باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 7027
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا ابو اسامة ، حدثنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: لما توفي عبد الله بن ابي ابن سلول، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله ان يعطيه قميصه يكفن فيه اباه، فاعطاه ثم ساله ان يصلي عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقام عمر فاخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اتصلي عليه وقد نهاك الله ان تصلي عليه؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما خيرني الله، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسازيده على سبعين "، قال: إنه منافق فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً وَسَأَزِيدُهُ عَلَى سَبْعِينَ "، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 "،
ابواسامہ نے کہا: ہمیں عبیداللہ بن عمر نے نافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنی قمیص اس کو عطا فرمائیں، جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دیں تو آپ نے (وہ قمیص) ان کو عطا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور (التجا کرنے کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے (کے ایک کنارے) کو پکڑ لیا اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے، اس نے فرمایا ہے: "آپ ان کے لیے استغفار کریں یا استغفار نہ کریں، خواہ آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں" اور میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔" (عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: یقینا وہ منافق ہے، (مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس پر اللہ عزوجل نے (واضح حکم) نازل فرمایا: "اور ان (منافقین) میں سے جو شخص مر جائے آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول فوت ہو گیا،اس کا بیٹا عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اسے اپنی قمیص عنایت فرمائیں وہ اسے اپنے باپ کاکفن بنائے تو آپ نے اسے اپنی قمیص عطا فرمائی، پھر اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ ادا فرمائیں، چنانچہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے، اللہ کا فرمان ہے، ان کے لیے بخشش طلب کریں۔ یا بخشش طلب نہ کریں،اگر تم ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش طلب کروگے(اللہ انہیں معاف نہیں فرمائے گا)اور میں ستر دفعہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ تو منافق ہے سو آپ نے اس پر نماز پڑھی چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری،"آپ ان میں سے جو بھی مرجائے،کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔"(توبہ آیت نمبر84۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2774
   صحيح البخاري5796عبد الله بن عمرنهاك الله أن تصلي على المنافقين فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم
   صحيح البخاري1269عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين قال الله تعالي استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم فصلى عليه فنزلت ولا تصل على أحد منهم مات أبدا
   صحيح مسلم7027عبد الله بن عمرخيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيده على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   صحيح مسلم6207عبد الله بن عمرخيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيد على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   سنن النسائى الصغرى1901عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين قال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم فصلى عليه أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   سنن ابن ماجه1523عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين استغفر لهم أو لا تستغفر لهم فأنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   بلوغ المرام438عبد الله بن عمراعطني قميصك اكفنه فيه،‏‏‏‏ فاعطاه صلى الله عليه وآله وسلم قميصه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 438  
´میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا `
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ عبداللہ بن ابی جب فوت ہوا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قمیص عنایت فرما دیں کہ میں اس میں اسے کفن دے دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر عنایت فرما دی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 438]
لغوی تشریح:
«فَأَعْطَاهُ» اپنی قمیص عطا فرما دی۔ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تدفین سے پہلے ہوا ہے لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسے قبر میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باہر نکالنے کا حکم دیا، اسے باہر نکالا گیا، پھر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1270]
علماء نے ان کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قمیص دینے کا وعدہ فرمایا ہو، دفن کے بعد جب یہ وعدہ یاد دلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اس لیے عنایت فرمائی تھی کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو آپ نے لباس دیے تھے اور ان میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی قیدی ہو کر آئے تھے، ان کا قد لمبا تھا، کسی کی قمیص انہیں پوری نہیں آتی تھی، عبداللہ بن ابی منافق نے اپنی قمیص دی تو انہیں پوری آ گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس احسان کا بدلہ چکانا چاہتے تھے، اس لیے یہ قمیص اسے پہنائی۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا جائز ہے۔
➋ اس واقعہ سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں سے محبت و شفقت کتنی تھی، اپنے احباب و اصحاب کی خواہش کا کتنا لحاظ رکھتے تھے، اس لیے قوم کے راہنما و قائدین حضرات کو بھی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

وضاحت:
عبداللہ بن ابي جاہلیت میں خزرج کا سردار تھا اور بظاہر اسلام میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت میں منافقین کا لیڈر رہا اور رئیس المنافقین کے لقب سے مشہور تھا۔ غزوہ احد کے موقع پر لشکر کا تہائی حصہ لےکر واپس ہو گیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک میں مرکزی کردار اسی کا تھا۔ سورۃ منافقون میں آیت:
«لَئِنَ رَّجَعْناَ اِلَي الْمَدِيْنَةِ لّيُخْرِجَنَّ الَّاعَزُّ مِنْهَا الْاذَلٌ» [المنافقون: 8:63]
اسی کے متعلق ہے، یعنی اس نے کہا تھا کہ جب ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو مدینے کا سب سے باعزت شخص (خود کو مراد لے رہا تھا) وہاں کے ذلیل ترین شخص کو ضرور نکال دے گا۔ اور اس ذلیل شخص سے اس خبیث کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس نے کہا تھا:
«لَا تُنْفِقُوْ عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ حَتّٰي يَنْفَضُّو»
یعنی تم اللہ کے رسول کے آس پاس رہنے والوں پر خرچ نہ کرو حتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔ ذی القعدہ ۹ ہجری میں فوت ہوا۔ «أُبَي» کے ہمزاد پر ضمہ اور یا پر تشدید ہے۔ سلول اس کی ماں کا نام تھا۔
«اِبْنُهُ» اس سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ابن سلول رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ان کا شمار عظیم اور صاحب فضل صحابہ میں ہوتا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا رویہ اپنے باپ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ جب عبداللہ بن ابی نے «لئن رجعنا . . . الخ» کہا تھا تو انھوں نے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت طلب کی تھی۔ جاہلیت کے دور میں ان کا نام حباب تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 438   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1523  
´اہل قبلہ کی نماز جنازہ ادا کرنا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اپنا کرتہ دے دیجئیے، میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کا جنازہ تیار کر کے) مجھے اطلاع دینا، جب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مجھے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1523]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا۔
جو زندگی بھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔
اور مسلمان کہلانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کو مختلف انداز میں تکلیفیں پہنچاتا رہا۔
لیکن اس کا بیٹا سچا مسلمان تھا۔
اس کا نام بھی عبد اللہ تھا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلجوئی کےلئے ان کے منافق باپ عبد اللہ بن ابی کو پہنانے کے لئے اپنی قمیص عطا فرمائی۔

(3)
کفن کے کپڑے بن سلے ہوتی ہیں۔
لیکن اگر کوئی خاص صورت حال پیش آ جائے تو سلا ہوا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس منافق کی بخشش نہیں ہوگی۔
اس کے باوجود نبی کریمﷺنے اس کےلئے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا۔
کیونکہ اللہ سے دعا کرنا ایک نیکی ہے۔
اس کے لئے قبولیت شرط نہیں۔

(5)
نفاق ایک قلبی کیفیت ہے۔
جسے اللہ ہی جانتا ہے۔
جب تک اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا رسول اللہﷺ کو بھی یقینی علم نہیں ہوا۔
جیسے کہ ارشاد ہے۔
﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ﴾  (التوبة: 101)
 مدینے والوں میں سے کچھ ایسے (منافق)
ہیں جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔
آپ ﷺ ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔
بعد میں نبی اکرمﷺ کو بتا دیا گیا۔
اور حکم دیا گیا کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔

(6)
ہم ظاہر کے مطابق عمل کے مکلف ہیں جو شخص لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ﷺ کا اقرار کرتا ہے۔
اسے مسلمان سمجھا جائےگا۔
جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کرے۔
جس سے اس کا کافر ہونا ظاہرہو جائے۔
اس لئے جب تک کسی کا کفر ثابت نہ ہوجائے۔
اس کے مرنے پر اس کا جنازہ پڑھا جائےگا۔
اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا۔
اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔
جب کہ غیر مسلم یا مرتد کے احکام اس کے برعکس ہوں گے۔

(7)
اگر دل میں ایمان نہ ہوتو کسی برکت والی چیز کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس لئے ظاہری اشیاء سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے دل کی اصلاح ضروری ہے۔

(8)
جس کا کفر معلوم ہو۔
اس کے حق میں دعائے مغفرت جائز نہیں۔
مثلاً کوئی عیسائی، ہندو یا قادیانی ہمسایہ یا رشتہ دار ہو تو اس کی وفات پر جس طرح اس کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔
اس کے حق میں دعا کرنا بھی درست نہیں۔
دیکھئے: (التوبة: 113)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1523   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.