الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
17. باب عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ:
17. باب: مردے کو اس کا ٹھکانہ بتلائے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7222
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني إسحاق بن عمر بن سليط الهذلي ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، قال: قال انس : كنت مع عمر. ح وحدثنا شيبان بن فروخ واللفظ له، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: كنا مع عمر بين مكة والمدينة، فتراءينا الهلال وكنت رجلا حديد البصر، فرايته وليس احد يزعم انه رآه غيري، قال: فجعلت اقول لعمر اما تراه، فجعل لا يراه، قال: يقول عمر : ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم انشا يحدثنا عن اهل بدر، فقال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس، يقول: هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، قال: فقال عمر: فوالذي بعثه بالحق ما اخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فجعلوا في بئر بعضهم على بعض، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتهى إليهم، فقال: يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا، قال عمر: يا رسول الله، كيف تكلم اجسادا لا ارواح فيها؟، قال: ما انتم باسمع لما اقول منهم غير انهم لا يستطيعون ان يردوا علي شيئا ".حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ : كُنْتُ مَعَ عُمَرَ. ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ أَمَا تَرَاهُ، فَجَعَلَ لَا يَرَاهُ، قَالَ: يَقُولُ عُمَرُ : سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا؟، قَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا ".
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا، پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر (میں قتل ہونے) والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں) کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: "اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کوئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔(حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا،پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر(میں قتل ہونے)والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں)کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا:"اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کو ئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2873

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7222  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوت ہے کہ مقتولین بدر نے آپ کی بات سن لی تھی،
وہ جواب کی طاقت نہیں رکھتے تھے،
اصل حقیقت یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں اور نہ ہم ان کو سنا سکتے ہیں،
لیکن اللہ تعالیٰ ان کو کوئی چیز سنانا چاہے تو وہ قادر مطلق ہے،
وہ جو چاہے کر سکتا ہے،
اس لیے جہاں نصوص (صحیح احادیث)
سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ مردوں نے فلاں چیز سن لی ہے،
یاں فلاں چیز سنتے ہیں،
(جیسے جوتیوں کی چھاپ)
تو اس کو تسلیم کر لیا جائے گا،
لیکن ان کی بنیاد پر قیاسی گھوڑے دوڑا کر ہر بات سننے کا دعویٰ کرنا یا ان سے استغاثہ کرنا درست نہیں ہے،
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کر کے فرما چکے ہیں وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾ قبروں والوں کو سنانا،
آپ کے بس میں بھی نہیں ہے تو دوسرے کیسے سناسکتے ہیں۔
''
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7222   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.