الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
17. باب عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ:
17. باب: مردے کو اس کا ٹھکانہ بتلائے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7223
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك قتلى بدر ثلاثا ثم اتاهم، فقام عليهم فناداهم، فقال: يا ابا جهل بن هشام، يا امية بن خلف، يا عتبة بن ربيعة، يا شيبة بن ربيعة اليس قد وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا "، فسمع عمر قول النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف يسمعوا وانى يجيبوا وقد جيفوا؟، قال: " والذي نفسي بيده ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكنهم لا يقدرون ان يجيبوا "، ثم امر بهم فسحبوا فالقوا في قليب بدر "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ، فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا "، فَسَمِعَ عُمَرُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَسْمَعُوا وَأَنَّى يُجِيبُوا وَقَدْ جَيَّفُوا؟، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا "، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ "،
حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا۔پھر آپ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکارکر فرمایا: اے ابوجہل بن ہشام!اے امیہ بن خلف!اے عتبہ بن ربیعہ!اےشیبہ بن ربیعہ!کیاتم نے وہ وعدہ سچانہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟میں نے تو اپنے رب نے کے وعدے کو سچا پایاہے۔جو اس نے میرے ساتھ کیاتھا!"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنا تو عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے۔جبکہ وہ تولاشیں بن چکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹا گیا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت انس بن املک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک مقتولین بدرکو رہنے دیا۔ پھر ان کے پاس آئے اور ان پر کھڑے ہو کر ان کوآواز دی۔"اے ابو جہل بن ہشام،اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ،کیا اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو وقوع پذیر ہوتے پا لیا۔"کیونکہ میں نے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو شدنی (واقع ہوتے) پالیا۔"سو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے سنیں گے جواب دے سکیں گے، جبکہ یہ لاش بن چکے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے جو کہہ رہا ہوں،تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو، لیکن انہیں جواب دینے کی قدرت حاصل نہیں ہے۔"پھرآپ نے اس ان کے بارے میں کھینچنے کا حکم دیا تو انہیں کھینچ کر بدر کے کھڈر میں ڈال دیا گیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2874

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7223  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ثم اَمَرَ بهم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ انہیں آپ کے ان کو مخاطب کرنے کے بعدکھڈ یا کچے کنویں میں ڈالا گیا،
بلکہ یہ معنی ہے کہ خطاب کے علاوہ،
ان سے یہ سلوک بھی کیا گیا،
جیسا کہ سورہ بلد میں اعمال کے تذکرہ کے بعد فرمایا ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا کہ یہ بات بھی ہے کہ وہ مومن ہو،
''اور امیہ بن خلف اگرچہ کھڈ میں نہیں ڈالا گیا تھا،
کیونکہ بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے وہ پھول کر پھٹ گیا تھا،
لیکن اس کو ان لاشوں کے قریب ہی رکھ کر مٹی اور پتھروں سے چھپا دیا گیا تھا،
اس لیے آپ نے اس کو بھی مخاطب فرمایا،
نیز اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام یہی سمجھتے تھے کہ مردے سنتے نہیں ہیں،
اس لیے انہوں نے حیرت زدہ ہو کر آپ سے سوال کیا کہ آپ ان لاشوں سے کیوں کر مخاطب ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7223   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.