الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
51. باب الْوُضُوءِ ثَلاَثًا ثَلاَثًا
51. باب: وضو میں اعضاء کو تین تین بار دھونے کا بیان۔
Chapter: Performing [The Actions Of] Wudu’ Thrice.
حدیث نمبر: 135
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن موسى بن ابي عائشة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف الطهور؟" فدعا بماء في إناء فغسل كفيه ثلاثا، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل ذراعيه ثلاثا، ثم مسح براسه فادخل إصبعيه السباحتين في اذنيه ومسح بإبهاميه على ظاهر اذنيه باطن اذنيه، ثم غسل رجليه ثلاثا ثلاثا ثم قال: هكذا الوضوء، فمن زاد على هذا او نقص، فقد اساء وظلم، او ظلم واساء".
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الطُّهُورُ؟" فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ فَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّاحَتَيْنِ فِي أُذُنَيْهِ وَمَسَحَ بِإِبْهَامَيْهِ عَلَى ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ بَاطِنَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا الْوُضُوءُ، فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا أَوْ نَقَصَ، فَقَدْ أَسَاءَ وَظَلَمَ، أَوْ ظَلَمَ وَأَسَاءَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا، پھر چہرہ تین بار دھویا، پھر دونوں ہاتھ تین بار دھلے، پھر سر کا مسح کیا، اور شہادت کی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا، اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے اپنے دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھلے، پھر فرمایا: وضو (کا طریقہ) اسی طرح ہے جس شخص نے اس پر زیادتی یا کمی کی اس نے برا کیا، اور ظلم کیا، یا فرمایا: ظلم کیا اور برا کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الطھارة 105 (140)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 48 (422)، (تحفة الأشراف: 8809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/180) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (مگر «‏‏‏‏أو نَقَصَ» ‏‏‏‏ کا جملہ شاذ ہے)

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: A man came to the Prophet ﷺ and asked him: Messenger of Allah, how is the ablution (to performed)? He (the Prophet) then called for water in a vessel and washed his hands up to the wrists three times, then washed his face three times, and washed his forearms three times. He then wiped his head and inserted both his index fingers in his ear-holes; he wiped the back of his ears with his thumbs and the front of his ears with the index fingers. He then washed his feet three times. Then he said: This is how ablution should be performed. If anyone does more or less than this, he has done wrong and transgressed, or (said) transgressed and done wrong.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 135


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح دون قوله أو نقص فإنه شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (417)
عمرو بن شعيب بن محمد بن عبدالله بن عمرو بن العاص عن أبيه عن جده، انظر مقالات للشيخ زبير علي زئي: 3/ 357
   سنن أبي داود135عبد الله بن عمرودعا بماء في إناء فغسل كفيه ثلاثا ثم غسل وجهه ثلاثا ثم غسل ذراعيه ثلاثا ثم مسح برأسه فأدخل إصبعيه السباحتين في أذنيه ومسح بإبهاميه على ظاهر أذنيه وبالسباحتين باطن أذنيه ثم غسل رجليه ثلاثا ثلاثا
   سنن ابن ماجه422عبد الله بن عمروهذا الوضوء فمن زاد على هذا فقد أساء أو تعدى أو ظلم
   سنن النسائى الصغرى140عبد الله بن عمروأراه الوضوء ثلاثا ثلاثا ثم قال هكذا الوضوء فمن زاد على هذا فقد أساء وتعدى وظلم
   سنن النسائى الصغرى142عبد الله بن عمروأسبغوا الوضوء
   بلوغ المرام33عبد الله بن عمرومسح براسه وادخل إصبعيه السباحتين في اذنيه،‏‏‏‏ ومسح بإبهاميه علي ظاهر اذنيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 33  
´کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح`
«. . . ثم مسح براسه وادخل إصبعيه السباحتين في اذنيه،‏‏‏‏ ومسح بإبهاميه علي ظاهر اذنيه . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے ہاتھوں کی دونوں شہادت والی انگلیوں کو کانوں میں داخل کیا اور انگوٹھوں سے کانوں کے باہر کا مسح کیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 33]

لغوی تشریح:
«اَلسَّبَّاحَتَيْنِ» «إِصْبَعَيْهِ» کی صفت واقع ہو رہا ہے۔ اس کا واحد «اَلسَّبَّاحَة» ہے۔ «اَلسَّبَّاحَة» اس انگلی کو کہتے ہیں جو انگوٹھے اور انگشت وسطی کے درمیان ہے۔ چونکہ اس سے تسبیح کے وقت اشارہ کیا جاتا ہے اس بنا پر اسے «سَبَّاحَة» کہتے ہیں۔ «سَبَّاحَتَيٰنِ» اس کا تثنیہ ہے، یعنی دونوں ہاتھوں کی انگشتہائے شہادت۔
«اَلْإِبْهَامِ» پانچوں انگلیوں میں سب سے پہلی، سب سے زیادہ فائدہ بخش اور «رُسْغ» (گٹ) کے زیادہ قریب، یعنی انگوٹھا۔
«ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ» سے مراد دونوں کانوں کا بالائی حصہ ہے۔ یعنی کانوں کی پشت اور بیرونی جانب۔

فوائد ومسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح فرمایا ہے۔
➋ ظاہر سے مراد کان کا وہ حصہ ہے جو سر کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور باطن وہ ہے جو منہ کی جانب ہوتا ہے، یعنی اندرونی جانب۔
➌ امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے کانوں کے ظاہر اور باطن پر مسح کی حدیث بیان کر کے کہا ہے کہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ER آپ سہمی قریشی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب کعب بن لؤی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اپنے والد سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنے والد محترم سے صرف تیرہ برس چھوٹے تھے۔ بڑے پائے کے عالم فاضل، حدیث کے حافظ اور عابد تھے۔ بکثرت احادیث نبویہ ان سے مروی ہیں۔ یہ ارشادات نبویہ کو قلم بند کر لیا کرتے تھے۔ 63 یا 70 ہجری میں وفات پائی۔ تدفین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ مکہ مکرمہ میں، طائف میں یا مصر میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 135  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا`
«. . . عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الطُّهُورُ؟" فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 135]
فوائد و مسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا اور اس طرح طالب علم کو جس قدر فائدہ ہوتا ہے، محض زبانی تلقین سے نہیں ہوتا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ صرف ایک جملہ «أونقص» جس نے کم کیا شاذ ہے۔ (شیخ البانی رحمہ اللہ) یعنی ایک راوی کا وہم ہے، کیونکہ اعضائے وضو کو ایک ایک، دو دو مرتبہ بھی دھونا جائز ہے۔ تاہم یہاں اگر «نقص» کا مفہوم یہ لے لیا جائے کہ جو شخص اعضائے وضو کو دھونے میں پورا نہ دھوئے یا ویسے ہی چھوڑ دے تو اس نے ظلم کیا۔ تو اس طرح اس کا مفہوم دوسری روایات کے مطابق ہی رہتا ہے۔ [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 135   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 140  
´وضو میں حد سے بڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین بار اعضاء وضو دھو کر کے دکھائے، پھر فرمایا: اسی طرح وضو کرنا ہے، جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا، وہ حد سے آگے بڑھا اور اس نے ظلم کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 140]
140۔ اردو حاشیہ: تین دفعہ دھونے سے میل کچیل دور ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اچھی طرح دھوئے، لہٰذا اس سے زائد دھونے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا بلکہ پانی ضائع ہو گا۔ اسراف کی عادت پڑے گی اور طبیعت وہمی ہو جائے گی، البتہ اگر اعضائے وضو میں سے کوئی عضو زیادہ غبار آلود ہو یا نجاست اور غلاظت لگ گئی ہو تو چاہیے کہ وضو سے قبل ہی اسے زائل کر لیا جائے اور اچھی طرح دھو لیا جائے تاکہ وضو شروع کرنے کے بعد انسان کسی طرح بھی مذکورہ وعید کا مرتکب نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 142  
´کامل وضو کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامل وضو کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 142]
142۔ اردو حاشیہ: اسباغ سے مراد یہ ہے کہ اعضاء کو اچھی طرح اہتمام کے ساتھ مکمل طور پر دھویا جائے تاکہ کوئی عضو یا اس کا کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے اور بعض اوقات مشقت کے باوجود اور نا چاہتے ہوئے بھی اسباع الوضوء کا اہتمام کرنا فضیلت کا عمل ہے جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے؟ صحابہ  نے عرض کیا: اللہ کے رسول کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: «إسباغ الوضوء علی المکارہ» مشقت کے باوجود اور ناچاہتے ہوئے بھی مکمل اور پورا وضو کرنا۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 251]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 142   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث422  
´وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا، اور آپ سے وضو کے سلسلے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار وضو کر کے اسے دکھایا، پھر فرمایا: یہی (مکمل) وضو ہے، لہٰذا جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، یا حد سے تجاوز کیا، یا ظلم کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 422]
اردو حاشہ:
(1)
۔
تعلیم کا ایک مؤثر طریقہ یہ بھی ہے کہ کام کرکے دکھایا جائے۔
اساتذہ کو چاہیے کہ عملی مسائل کی تفہیم میں اس طریقے سے فائدہ اٹھائیں۔

(2) (هٰذَا الْوُضُوء)
یہ ہوتا ہے وضو، اس کا مطلب یہ ہے کہ وضو کا صحیح طریقہ یہ ہے۔

(3)
اضافہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ تین بار سے زیادہ کسی عضو کو دھوئے۔

(4)
  اضافے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پانی کے استعمال میں فضول خرچی کرے لہذا اس سے بھی بچنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 422   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.