الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
140. باب فِي طُهُورِ الأَرْضِ إِذَا يَبِسَتْ
140. باب: زمین خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے۔
Chapter: The Earth Becomes Pure When Dry.
حدیث نمبر: 382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني حمزة بن عبد الله بن عمر، قال: قال ابن عمر:" كنت ابيت في المسجد في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وكنت فتى شابا عزبا، وكانت الكلاب تبول وتقبل وتدبر في المسجد، فلم يكونوا يرشون شيئا من ذلك".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْتُ فَتًى شَابًّا عَزَبًا، وَكَانَتْ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رات کو مسجد میں سوتا تھا، میں ایک نوجوان کنوارا (غیر شادی شدہ) تھا، اور کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب کرتے، کوئی اس پر پانی نہ بہاتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوضوء 33 (174)، تعلیقًا (تحفة الأشراف: 6704)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/71) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین میں اگر پیشاب وغیرہ پڑ جائے پھر وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے، نیز مسجد میں سونا درست اور جائز ہے۔

Ibn Umar said: I used to sleep in the mosque in the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ when I was young and bachelor. The dogs would urinate frequently visit the mosque, and no one would sprinkle over it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 382


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (174)
   صحيح البخاري174عدي بن حاتمكانت الكلاب تبول وتقبل وتدبر في المسجد في زمان رسول الله فلم يكونوا يرشون شيئا من ذلك
   سنن أبي داود382عدي بن حاتموكانت الكلاب تبول وتقبل وتدبر في المسجد، فلم يكونوا يرشون شيئا من ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 174  
´کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق`
«. . . كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ..»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 174]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: کسی طرح یہ امر یقین کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مسجد نبوی میں ہمیشہ کتا آ جایا کرتا، نہ تو کتے کے آنے کا انسداد کیا جائے اور نہ اس جگہ پانی چھینٹا جائے کہ پاک ہو جائے .....اور طرہ یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث سے یہ اجتہاد فرمایا کہ کتے کا پیشاب پاک ہے!۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت:
«كنت أبيت فى المسجد و كانت الكلاب.....الخ» ۱؎
سے معلوم ہوتا ہے اور یہ ابتدائے دور مدینہ کا واقعہ ہے، جبکہ مسجد کی تکریم و تطہیر کا حکم نہیں ہوا تھا،

جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
«إن ذلك كان فى ابتداءالحال،ثم وردالأمر بتكريم المساجد وتطهيرها،وجعل الأبواب عليها» (14/1) ۲؎
یہ ابتداءِ وقت کا واقعہ ہے، پھر اس کے بعد مسجد میں دروازہ لگانے اور اس کی عزت اور پاک کرنے کاحکم صادر ہو گیا۔‏‏‏‏

امید ہے کہ اب تو معترضین کو کتوں کے مسجد میں آ جانے اور اس کے عدم انسداد کی وجہ بخوبی معلوم ہو گئی ہو گی۔ ہاں اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتوں کے پیشاب کے پاک ہونے کی دلیل سمجھنا کم فہمی ہے، بحالیکہ کہ حدیثِ مذکور میں کہیں پیشاب کا ذکر بھی نہیں ہے، اسی لئے تو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں صاف لکھ دیا ہے:
«لا حجة فيه لمن استدل به على طهارة الكلاب، للاتفاق على نجاسة بولها» (139/1) ۳؎
یعنی کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق ہے، اس میں کتے کی طہارت کی دلیل بھی نہیں ہے۔‏‏‏‏

چہ جائیکہ اس کے بول کی طہارت ثابت ہو؟ ہاں اگر آپ فرما دیں کہ دیگر روایات مثلاً ابوداود وغیرہ میں «تبول» کا لفظ بھی آیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا اعتراض صحیح بخاری کی روایت پر ہے، اور اس میں یہ لفظ ندارد ہے۔ ۴؎ چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ثابت نہیں ہوا، اس لیے نہیں لائے، اور جن روایتوں میں آیا بھی ہے اس کی «خارج المسجد» محذوف مان کر تاویل کی گئی ہے۔ ۳؎ یعنی وہ مسجد کے باہر پیشاب کرتے تھے، کیونکہ اگر مسجد میں پیشاب کرتے تو ضرور پانی بہایا جاتا، جب ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا، تو اس پر پانی بہایا گیا، تو کتا جس کا پیشاب باتفاق ناپاک ہے، وہ مسجد میں پیشاب کرتا اور پانی نہ بہایا جاتا، ایں چہ معنی؟

یہ اس امر پر صاف قرینہ ہے کہ وہ مسجد کے باہر بول کرتے تھے اور پھر تو رفتہ رفتہ جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو عروج بخشا، ممالک فتح ہوئے، تو مسجد نبوی شاندار بن گئی، دیواریں بھی درست ہو گئیں، منبر بھی تیار ہو گیا، دروازے بھی لگ گئے، غرض سب کچھ ہو گیا اور ہر چیز سے پورا انسداد ہو گیا، جن لوگوں کے دروازے مسجد کی جانب تھے، وہ بھی مسدود ہو گئے، غرض بہر صورت کامل انتظام ہو گیا۔ «فالحمدلله»
------------------
۱؎ [سنن ابي داود:382،قال الشيخ الألباني: صحيح]
۲؎ [فتح الباري:279/1]
۳؎ [فتح الباري:278/1]
۴؎ صحیح بخاری کی منقولہ بالا حدیث یہیں سے شروع ہوتی ہے: «كانت الكلاب تبول و تقبل .....الخ»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 174  
´جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)`
«. . . قَالَ: كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 174]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
پہلی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں واضح طور پر اس کا حل ہے کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے سات مرتبہ پانی سے دھوئیں. [صحيح بخاري 172]
مگر دوسری حدیث میں صاف طور پر اس کا انکار ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کو نہیں دھوتے تھے جہاں کتا بیٹھتا تھا۔ [صحيح بخاري 174]
اس میں تطبیق یہ ہو گی کہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے۔ اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام و اہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی باتوں سے منع کر دیا گیا کہ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا: لوگو! مسجد میں بیہودہ بات کرنے سے پرہیز کرو۔ تو جب لغو بات سے روکا گیا تو دوسرے امور کا بھی یہی حال ہو گا۔ اس لئے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کے بارے میں سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا تھا اب وہی حکم باقی ہے جس کی تائید کئی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کو سات مرتبہ دھونے کے بعد آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا بھی حکم آیا ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ پھر سات مرتبہ پانی سے۔ [فتح الباري ج1 ص219۔ 220]

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ باب میں دھونے کے بارے میں یا کتنی مرتبہ کتے کے جھوٹھے کو دھویا جائے۔ متعین نہیں مگر حدیث میں سات مرتبہ کا ذکر ہے اور دوسری حدیث جس میں مطلق نہ دھونے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے لہٰذا نہ دھونا منسوخ ہوا تو دھونا بالاولیٰ درست ٹھہرا، یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
مذکورہ حدیث کا تعلق حیوانات کے ساتھ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ایک ایسی تحقیق کی وضاحت کی جسے آج سائنسدان مانتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی روشن دلیل ہے۔ دو میڈیکل ڈاکٹر باپ اور بیٹی مصر میں مقیم تھے اور یہ دونوں فرانسیسی تھے۔ جب باپ نے یہ حدیث پڑھی تو فوری طور پر کتے کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھ دیا جب وہ اس کو پی چکا تو انہوں نے خردبین سے دیکھا کہ اس میں جراثیم موجود تھے۔ پانی گرا کر کئی بار دھویا گیا. ہر بار جراثیم برتن میں تھے حتیٰ کہ جب مٹی سے مانجھا گیا اور اس کے بعد چیک کیا گیا تو جراثیم نہ صرف مر چکے تھے بلکہ برتن پاک ہو گیا تھا. اس پر دونوں ڈاکٹر باپ اور بیٹی مسلمان ہو گئے۔

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنسی تحقیقات کے مصنف رقمطراز ہیں:
موجودہ دور کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ کتے کے تھوک میں وہ جراثیم پاتے جاتے ہیں جو کتے کو پاگل بناتے ہیں۔ جنہیں انگریزی میں ریبیز وائرس کہتے ہیں۔ کتا جب کسی برتن کو چاٹے گا تو اگر وہ جراثیم اس برتن کے ساتھ لگ گئے تو وہ جراثیم بغیر مٹی سے مانجھے برتن سے علیحدہ نہیں ہو سکتے ہیں نہ ہی فنا ہو سکتے ہیں۔ خاک میں یہ خاصیت ہے کہ ان جراثیم کو فنا کر دیتی ہے۔ اسی بناء پر اسلام نے مٹی سے مانجھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔

طویل تجربات و مشاہدات اور طبی تحقیقات نے دونوں حقیقتوں کا واشگاف کر دیا ہے۔ طبی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کتے کے لعاب دہن میں ایک مخصوص قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جنہیں ریبی وائرس کہتے ہیں، ان سے ایک انتہائی مہلک اور موذی مرض پیدا ہوتا ہے۔ جس کے اثرات ظاہر ہونے کے بعد کوئی مریض بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح تحقیقات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مٹی میں دیگر اجزاء کے علاوہ کثیر مقدار میں نوشادر، شورہ، امونیم اور کیلشیم آکسائیڈ ہوتے ہیں، جن سے اس قسم کے وائرس کی تطہیر ہو جاتی ہے۔ [سنت نبوي صلى الله عليه وسلم اور جديد سائنسي تحقيقات، ج2، ص291]

فائدہ نمبر 2:
کتےکے جھوٹھے برتن کو پاک کرنے کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ کسی حدیث میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے تو کسی میں پانچ مرتبہ تو کسی میں سات مرتبہ۔

ابن الملقن رحمہ اللہ ان مختلف روایات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«انه روي من طريق ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً التخيير بين الثلاث الخمس والسبع، فل كان السبع واجباً لم يخير بينه و بين الباقي لكنه ضعيف كمانبه الدار قطني فى سننه والبهقي فى خلافيات» [التوضيح الشرح الجامع الصحيح، ج4 ص2455]
یعنی وہ روایت بطریق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہیں۔ تین، پانچ اور سات مرتبہ دھونے میں اختیار ہے۔ پس اگر سات مرتبہ واجب ہوتا تو ان میں اختیار نہ ہوتا۔ لیکن (تین اور پانچ کی روایات) وہ ضعیف ہیں جس کا ذکر امام دارقطنی نے سنن میں اور امام بیہقی نے خلافیات میں فرمایا ہے۔
سنن دارقطنی میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے مگر امام دارقطنی فرماتے ہیں اس کی سند موقوف ہے۔
دوسری روایت میں تین پانچ اور سات مرتبہ کا ذکر ہے اس روایت کے بعد امام دارقطنی فرماتے ہیں عبدالوہاب نے تفرد کیا ہے اسماعیل سے اور وہ متروک الحدیث ہے۔
تیسری روایات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے اس کی سند میں عبدالوہاب بن الضحاک ہے۔ امام نسائی وغیرہ نے فرمایا متروک۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
① التعلیق المغنی على سنن الدارقطنی، ج92 تا 96
② التحقیق لابن الجوزی، ج1، ص74
③ مشکل الآثار للطحاوی، ج1، ص 23
④ الخلاقیات للبیھقی، ج1 صح379 تا 382

بعض اہل علم نے تین مرتبہ اور پانچ مرتبہ دھونے کے حکم کو منسوخ خیال کیا ہے۔ مگر منسوخ بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا جب روایات ضعیف ہیں تو پھر منسوخ کے تکلف میں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
[التحرير للكمال بن الهمام ص 229]
[امير بادشاه فى تيسيرالتحرير ج3، ص72]
[التقرير والتحبير لابن امير الحاج، ج2، ص266]
مگر احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوا کرتا بلکہ منسوخیت کے کئی ایک دلائل علماء نے ذکر فرمائے ہیں۔ مزید تحقیق کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔
① نیل الاوطار 42/1
② الام6/1
③ نصب الرایۃ ج1، ص131
④ مغنی المحتاج 83/1
⑤ المھذب، ج1، ص 55
⑥ شرح النوی علی مسلم185/3
④ التنبیہ ص17
⑦ الشرح الصغیر 85/1
⑧ المجموع، ج2، ص585
⑨ حاشیۃ الدسوقی 84/1
⑩ المغنی73/1
⑪ مقدمات ابن ارشد 21/1
⑫ شرح منتھی الارادات97/1
⑬ قوانین احکام الشریعۃ، ص35
⑭ المحرر4/1
⑮ فتح باب العنایۃ 149/1
⑯ الشرح الکبیر128/1
⑰ کشاف القناع 208/1
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 135   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 382  
´زمین خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رات کو مسجد میں سوتا تھا، میں ایک نوجوان کنوارا (غیر شادی شدہ) تھا، اور کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب کرتے، کوئی اس پر پانی نہ بہاتا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 382]
382۔ اردو حاشیہ:
➊ مسجد عبادت گاہ ہے اس کا مسلمانوں کے رفاہی امور میں استعمال جائز ہے، مگر لازم ہے کہ اس کے آداب کا خاص خیال اور اہتمام کیا جائے۔
➋ جب زمین خشک ہو جائے اور نجاست ظاہر نہ ہو تو زمین پاک شمار ہوتی ہے۔
➌ نوجوانوں کو مسجد میں سونے سے اس وجہ سے روکنا کہ انہیں احتلام ہو جاتا ہے، شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 382   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.