الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab Estaftah Assalah)
173. باب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلاَةِ
173. باب: نماز میں چھینک کے جواب میں «یرحمک اللہ» کہنے کا بیان۔
Chapter: Responding To The One Who Has Sneezed In The Prayer.
حدیث نمبر: 930
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى. ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم المعنى، عن حجاج الصواف، حدثني يحيى بن ابي كثير، عن هلال بن ابي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعطس رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، فرماني القوم بابصارهم، فقلت: واثكل امياه، ما شانكم تنظرون إلي؟ فجعلوا يضربون بايديهم على افخاذهم، فعرفت انهم يصمتوني، فقال عثمان: فلما رايتهم يسكتوني لكني سكت، قال: فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بابي وامي ما ضربني ولا كهرني ولا سبني، ثم قال:" إن هذه الصلاة لا يحل فيها شيء من كلام الناس هذا إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن"، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، إنا قوم حديث عهد بجاهلية، وقد جاءنا الله بالإسلام، ومنا رجال ياتون الكهان، قال:" فلا تاتهم"، قال: قلت: ومنا رجال يتطيرون، قال:" ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدهم"، قلت: ومنا رجال يخطون، قال:" كان نبي من الانبياء يخط، فمن وافق خطه فذاك"، قال: قلت جارية لي كانت ترعى غنيمات قبل احد والجوانية: إذ اطلعت عليها اطلاعة فإذا الذئب قد ذهب بشاة منها، وانا من بني آدم آسف كما ياسفون، لكني صككتها صكة، فعظم ذاك على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: افلا اعتقها؟ قال:" ائتني بها"، قال: فجئته بها، فقال:" اين الله؟" قالت: في السماء، قال:" من انا؟" قالت: انت رسول الله، قال:" اعتقها فإنها مؤمنة".
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصَمِّتُونِي، فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي وَأُمِّي مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَحِلُّ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ هَذَا إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ"، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَنَا اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ:" فَلَا تَأْتِهِمْ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدُّهُمْ"، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ"، قَالَ: قُلْتُ جَارِيَةٌ لِي كَانَتْ تَرْعَى غُنَيْمَاتٍ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ: إِذْ اطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْهَا، وَأَنَا مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَعَظُمَ ذَاكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ:" ائْتِنِي بِهَا"، قَالَ: فَجِئْتُهُ بِهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ اللَّهُ؟" قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ:" مَنْ أَنَا؟" قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ:" أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ".
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) «يرحمك الله» کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے، یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں (ابھی) نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو (جاہلیت اور کفر سے نجات دے کر) دین اسلام سے مشرف فرمایا ہے، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس مت جاؤ۔ میں نے کہا: ہم میں سے بعض لوگ بد شگونی لیتے ہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دلوں کا وہم ہے، یہ انہیں ان کے کاموں سے نہ روکے۔ پھر میں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیر (خط) کھینچتے ہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی خط (لکیریں) کھینچا کرتے تھے، اب جس کسی کا خط ان کے خط کے موافق ہوا، وہ صحیح ہے۔ میں نے کہا: میرے پاس ایک لونڈی ہے، جو احد اور جوانیہ کے پاس بکریاں چراتی تھی، ایک بار میں (اچانک) پہنچا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلا گیا ہے، میں بھی انسان ہوں، مجھے افسوس ہوا جیسے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے تو میں نے اسے ایک زور کا طمانچہ رسید کر دیا تو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، میں نے عرض کیا: کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لے کر آؤ، میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس لونڈی سے) پوچھا: اللہ کہاں ہے؟، اس نے کہا: آسمان کے اوپر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 7 (537)، والسلام 35 (537)، سنن النسائی/السھو 20 (1219)، (تحفة الأشراف: 11378)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العتق 6 (8) مسند احمد (5/447، 448، 449)، سنن الدارمی/الصلاة 177 (1543) ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (3282)، وفی الطب (3909) (صحیح)» ‏‏‏‏

Muawiyah bin al-Hakam al-Sulami said: I was praying with the Messenger of Allah ﷺ. A man in the company sneezed, and I said: May Allah have mercy on you! The people gave me disapproving looks, so I said: Woe is to me! What do you mean by looking at me? They began to strike their hand on their thighs; then I realised that they were urging me to be silent. When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer – for whom I would give my father and mother as ransom-he did not beat, scold or revile me, but said: No talk to people in lawful in this prayer, for it consists only in glorifying Allah, declaring His greatness, and reciting the Quran or words to that effect said by the Messenger of Allah ﷺ. I said: Messenger of Allah, we were only recently pagans, but Allah has brought Islam to us, and among us there are men who have recourse to soothsayers (kahins). He replied: Do not have recourse to them. I said: Among us are there are men who take omens. He replied: That is something which they find, but let it not turn them away (from what they intended to do). I said: among us there are men who draw lines. He replied: There was a prophet who drew lines; so if the line of anyone tallies with this line, that might come true. I said: A slave-girl of mine used to tend goats before (the mountain) Uhud and al-Jawaniyyah. Once when I reached her (suddenly) I found that a wolf had taken away a goat of them. I am a human being; I feel grieved as others do. But I gave her a good knocking. This was unbearable for the Messenger of Allah ﷺ. I asked: Should I set her free ? He replied: Bring her to me. So I brought her to him. He asked (her): Where is Allah ? She said: In the heaven. He said: Who am I ? She replied: You are the Messenger of Allah. He said: Set her free, for she is believer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 930


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (537)
   سنن النسائى الصغرى0معاوية بن الحكمصلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وتلاوة القرآن
   صحيح مسلم1199معاوية بن الحكمالصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن منا رجالا يأتون الكهان قال فلا تأتهم منا رجال يتطيرون قال ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدنهم منا رجال يخطون قال كان نبي من الأنبياء يخط فمن وافق خطه فذاك أفلا أعتقها ق
   سنن أبي داود930معاوية بن الحكمالصلاة لا يحل فيها شيء من كلام الناس هذا إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن منا رجال يأتون الكهان قال فلا تأتهم قال قلت ومنا رجال يتطيرون قال ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدهم منا رجال يخطون قال كان نبي من الأنبياء يخط فمن وافق خطه فذاك أ
   سنن أبي داود931معاوية بن الحكمالصلاة لقراءة القرآن وذكر الله فإذا كنت فيها فليكن ذلك شأنك
   بلوغ المرام172معاوية بن الحكم‏‏‏‏إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس،‏‏‏‏ إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 172  
´نماز میں کلام الناس جائز نہیں، نماز میں تو تسبیح و تکبیر اور قرأت قرآن ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس،‏‏‏‏ إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں انسانی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں، نماز تو صرف تسبیح «سبحان الله» تکبیر «الله اكبر» اور تلاوت قرآن (پر مشتمل) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 172]

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ دوران نماز میں ایک نمازی نے چھینک ماری، اس کے جواب میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حالت نماز میں «يَرْحَمُكَ اللهُ» کہہ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مندرجہ بالا حدیث فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں دوسرے کو مخاطب کر کے بات کرنا منع ہے۔
➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مقتدی پر نماز میں قرأت قرآن فرض ہے کیونکہ یہ جماعت کی نماز تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر مقتدی کو کہا کہ نماز میں کلام الناس جائز نہیں، نماز میں تو تسبیح و تکبیر اور قرأت قرآن ہوتی ہے۔ اور مقتدی پر کون سی قرأت واجب ہے؟ اس کی وضاحت دیگر متعدد صحیح احادیث میں موجود ہے کہ وہ سورہ فاتحہ کی قرأت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ» جو شخص بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحيح البخاري، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم فى الصلوات كلها۔۔۔، حديث: 756]

راوئ حدیث:
(سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ) ان کا شمار اہل حجاز میں ہوتا ہے۔ مدینہ میں سکونت اختیار کی اور بنو سلیم میں رہنے لگے۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ 117 ہجری میں وفات پائی۔ حکم کی حا اور کاف دونوں پر فتحہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 172   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 931  
´نماز میں چھینک کے جواب میں «یرحمک اللہ» کہنے کا بیان۔`
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے اسلام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں چنانچہ جو باتیں مجھے معلوم ہوئیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جب تمہیں چھینک آئے تو «الحمد الله» کہو اور کوئی دوسرا چھینکے اور «الحمد الله» کہے تو تم «يرحمك الله» کہو۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی اس نے «الحمد الله» کہا تو میں نے «يرحمك الله» بلند آواز سے کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا، میں نے کہا: تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے «سبحان الله» کہا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: (دوران نماز) کس نے بات کی تھی؟، لوگوں نے کہا: اس اعرابی نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا: نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے، تو جب تم نماز میں رہو تو تمہارا یہی کام ہونا چاہیئے۔‏‏‏‏ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور مہربان کبھی کسی معلم کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 931]
931۔ اردو حاشیہ:
➊ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم پچھلی صحیح حدیث اس کی مؤید ہے۔
➋ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے، البتہ خود چھینک مارنے والا اگر خاموشی سے «الحمد لله» کہے تو جائز ہے۔
➌ نماز میں ضرورت کا اشارہ جائز ہے۔
➍ دعوت و تعلیم اسلام میں نرمی اور اخوت کا انداز اپنانا واجب ہے۔
➎ کاہنوں کے پاس جانا اور ان سے غیب کی خبریں دریافت کرنا حرام ہے۔ اس طرح بدفالی اور بدشکونی لینا بھی ناجائز ہے۔
➏ علم خطوط دراصل وحی شدہ علم تھا مگر اٹھا لیا گیا۔ اسے حضرت ادریس علیہ السلام یا دانیال علیہ السلام کی طرف منسو ب کیا جاتا ہے، اب اس میں مشغول ہونا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے، اس پر کسی طرح بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ جوابات میں حق کا اثبات اور باطل کا ابطال نہایت عمدہ انداز میں ہوا ہے۔ اس میں داعی اور مفتی حضرات کے لئے بہت بڑا درس ہے۔
➐ خادم وغیرہ کو بلاوجہ معقول سزا دینا ظلم اور ناجائز ہے، چاہیے کہ انسان اس کا کفارہ ادا کرے۔
➑ اسلام کی تعلیمات عقائد و اعمال انتہائی سادہ اور فطرت کے مطابق ہیں اور ان کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔
➒ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور اس کی طرف جہت و جانب کی نسبت کرنا عین حق ہے۔
➓ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 931   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.