الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
49. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَفِي الرِّقَابِ} ، {وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} :
49. باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان (زکوٰۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے کہ زکوٰۃ) غلام آزاد کرانے میں، مقروضوں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے میں خرچ کی جائے۔
(49) Chapter. The Statement of Allah;
حدیث نمبر: Q1468
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر عن ابن عباس رضي الله عنهما يعتق من زكاة ماله ويعطي في الحج , وقال الحسن إن اشترى اباه من الزكاة جاز ويعطي في المجاهدين , والذي لم يحج ثم تلا إنما الصدقات للفقراء الآية في ايها اعطيت اجزات وقال النبي صلى الله عليه وسلم إن خالدا احتبس ادراعه في سبيل الله ويذكر عن ابي لاس حملنا النبي صلى الله عليه وسلم على إبل الصدقة للحج.وَيُذْكَرُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُعْتِقُ مِنْ زَكَاةِ مَالِهِ وَيُعْطِي فِي الْحَجِّ , وَقَالَ الْحَسَنُ إِنِ اشْتَرَى أَبَاهُ مِنَ الزَّكَاةِ جَازَ وَيُعْطِي فِي الْمُجَاهِدِينَ , وَالَّذِي لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ تَلَا إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ الْآيَةَ فِي أَيِّهَا أَعْطَيْتَ أَجْزَأَتْ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خَالِدًا احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي لَاسٍ حَمَلَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ لِلْحَجِّ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کر سکتا ہے اور حج کے لیے دے سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی زکوٰۃ کے مال سے اپنے آپ کو جو غلام ہو خرید کر آزاد کر دے تو جائز ہے۔ اور مجاہدین کے اخراجات کے لیے بھی زکوٰۃ دی جائے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے جس نے حج نہ کیا ہو۔ (تاکہ اس امداد سے حج کر سکے) پھر انہوں نے سورۃ التوبہ کی آیت «إنما الصدقات للفقراء‏» آخر تک کی تلاوت کی اور کہا کہ (آیت میں بیان شدہ تمام مصارف زکوٰۃ میں سے) جس کو بھی زکوٰۃ دی جائے کافی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر دی ہیں۔ ابوالاس (زیادہ خزاعی صحابی) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زکوٰۃ کے اونٹوں پر سوار کر کے حج کرایا۔

حدیث نمبر: 1468
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه , قال:" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصدقة، فقيل منع ابن جميل وخالد بن الوليد وعباس بن عبد المطلب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما ينقم ابن جميل إلا انه كان فقيرا فاغناه الله ورسوله، واما خالد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله، واما العباس بن عبد المطلب فعم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي عليه صدقة ومثلها معها" تابعه ابن ابي الزناد، عن ابيه، وقال ابن إسحاق: عن ابي الزناد هي عليه ومثلها معها، وقال ابن جريج: حدثت عن الاعرج بمثله.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا" تَابَعَهُ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ أَبِي الزِّنَادِ هِيَ عَلَيْهِ وَمِثْلُهَا مَعَهَا، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: حُدِّثْتُ عَنِ الْأَعْرَجِ بِمِثْلِهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنا دیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ «هي عليه ومثلها معها» (صدقہ کے لفظ کے بغیر) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle (p.b.u.h) ordered (a person) to collect Zakat, and that person returned and told him that Ibn Jamil, Khalid bin Al-Walid, and `Abbas bin `Abdul Muttalib had refused to give Zakat." The Prophet said, "What made Ibn Jamil refuse to give Zakat though he was a poor man, and was made wealthy by Allah and His Apostle ? But you are unfair in asking Zakat from Khalid as he is keeping his armor for Allah's Cause (for Jihad). As for `Abbas bin `Abdul Muttalib, he is the uncle of Allah's Apostle (p.b.u.h) and Zakat is compulsory on him and he should pay it double."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 547

   سنن النسائى الصغرى2466عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله وأما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله فهي عليه صدقة ومثلها معها
   صحيح البخاري1468عبد الرحمن بن صخرعم رسول الله فهي عليه صدقة ومثلها معها
   صحيح مسلم2277عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله أما العباس فهي علي ومثلها معها عم الرجل صنو أبيه
   سنن أبي داود1623عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أن كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا فقد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله أما العباس عم رسول الله فهي علي ومثلها عم الرجل صنو الأب أو صنو أبيه
   بلوغ المرام747عبد الرحمن بن صخربعث رسول الله عمر على الصدقة
   بلوغ المرام787عبد الرحمن بن صخر وأما خالد فقد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 747  
´شراکت اور وکالت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زکٰوۃ وصول کرنے پر تحصیلدار مقرر فرمایا۔ (الحدیث) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 747»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الزكاة، باب قول الله تعالي: "وفي الرقاب الغارمين وفي سبيل الله"، حديث:1468، ومسلم، الزكاة، باب في تقديم الزكاة ومنعها، حديث:983.»
تشریح:
1. اس حدیث کو یہاں وکالت کے اثبات میں نقل کیا گیا ہے۔
2.مکمل حدیث کا مفہوم اس طرح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابن جمیل‘ حضرت عباس اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے اپنی زکاۃ ادا نہیں کی۔
آپ نے فرمایا: ابن جمیل غریب و مفلس تھا اسے یہی بات راس نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار اور غنی کردیا ہے۔
(یہ منافق تھا اس نے بعد میں توبہ کی اور سچا مسلمان بن گیا۔
)
اور رہی عباس رضی اللہ عنہ کی زکاۃ! تو وہ میرے ذمے ہے‘ اور اس کے برابر اور بھی (کیونکہ میں ان سے دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول کر چکا ہوں۔
)
اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے زکاۃ کا مطالبہ کر کے تم اس پر زیادتی کرتے ہو اس نے تو اپنا اسلحہ‘ سواریاں اور زر ہیں (گویا سارا مال و متاع) اللہ کے لیے وقف کر رکھا ہے تو اس سے زکاۃ کا تقاضا کیسا؟ 3. اس سے معلوم ہوا کہ سربراہ مملکت زکاۃ وصول کرنے کی ذمہ داری کسی مناسب شخص پر ڈال سکتا ہے۔
اور اسی لیے یہ روایت یہاں ذکر کی گئی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 747   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1623  
´وقت سے پہلے زکاۃ نکال دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے (زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن جمیل اس لیے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کر دیا، رہے خالد بن ولید تو خالد پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامان جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ۱؎، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی قدر اور ہے ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے۔‏‏‏‏ راوی کو شک ہے «صنو الأب» کہا، یا «صنو أبيه» کہا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1623]
1623. اردو حاشیہ:
➊ ابن القصار مالکی اوربعض دیگر علماء سے قاضی عیاض نے نقل کیا ہے۔ کہ مزکورہ بالا واقعہ کسی نفلی صدقہ سے متعلق ہے۔ورنہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے ممکن نہیں کہ وہ انکار کرتے۔مگر صحیحین کا سیاق فرضی زکواۃ کے متعلق ہی ہے۔ ابن جمیل پرعتاب آمیز تعریض ہے۔ حضرت خالد پرزکواۃ لازم ہی نہ تھی۔کیونکہ وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں دے چکے تھے۔اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ ﷺ دو سال کی زکواۃ پیشگی لے چکے تھے۔جیسے کہ ابودائود طیالسی مسند بزار اور سنن دارقطنی کی روایات سے ثابت ہوتا ہ ے۔اور اس میں یہی استدلال ہے کہ قبل از وقت زکواۃ نکالی جاسکتی ہے۔(نیل الاوطار 169/4)ابن جمیل کے واقعے سے بھی یہ استدلال ہے۔کہ اگر کوئی زکواۃ سے مانع ہو مگر مسلح انداز سے مقابلہ نہ کرے۔ تو اس سے زکواۃ جبراً لی جائے گی۔اس سے بڑھ کر اس پرکوئی عتاب نہیں۔ بخلاف اس کیفیت کے جو خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مانعین زکواۃ نے اختیار کی تھی کہ مسلح ہوکر حکومت اسلامیہ کے مقابلے میں آگئے تھے۔تو ان سے قتال کیاگیا۔
➋ چچا کا ادب واحترام ویسا ہی کرناچاہیے جیسے کہ باپ کا ہوتا ہے۔کیونکہ وہ باپ کا بھائی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1623   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1468  
1468. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا، عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب ؓ نے صدقہ نہیں دیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:ابن جمیل تو اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ تنگ دست تھا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اسے مالدار کردیا، مگر خالد پر تم زیادتی کرتے ہو کیونکہ اس نے تو اپنی زرہیں اور آلات اللہ کی راہ میں وقف کر رکھے ہیں، رہے عباس بن عبد المطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں ان کی زکاۃ ان پر صدقہ اور اس کے برابر اور بھی (میری طرف سے ہوگی)۔ ابو زنادنے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔یہ ان (محمد ﷺ) کے ذمے ہے اور اس کے برابر اور بھی۔ ابن جریج نے اعرج سے بیان کرنے میں ابو زناد کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1468]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں تین اصحاب کا واقعہ ہے۔
پہلا ابن جمیل ہے جو اسلام لانے سے پہلے محض قلاش اور مفلس تھا۔
اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب وہ زکوٰۃ دینے میں کراہتا ہے اور خفا ہوتا ہے۔
اور حضرت خالد ؓ کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خود فرما دیا جب انہوں نے اپنا سارا مال واسباب ہتھیار وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیا ہے تو اب وقفی مال کی زکوٰۃ کیوں دینے لگا۔
اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دینا یہ خود زکوٰۃ ہے۔
بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ خالد تو ایسا سخی ہے کہ اس نے ہتھیار گھوڑے وغیرہ سب راہ خدا میں دے ڈالے ہیں۔
وہ بھلا فرض زکوٰۃ کیسے نہ دے گا تم غلط کہتے ہو کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتا۔
حضرت عباس ؓ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ زکوٰۃ بلکہ اس سے دونا میں ان پر سے تصدق کروں گا۔
مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عباس ؓ کی زکوٰۃ بلکہ اس کا دونا روپیہ میں دوں گا۔
حضرت عباس ؓ دو برس کی زکوٰۃ پیشگی آنحضرت ﷺ کودے چکے تھے۔
اس لیے انہوں نے ان تحصیل کرنے والوں کو زکوٰۃ نہ دی۔
بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ بالفعل ان کو مہلت دو۔
سال آئندہ ان سے دوہری یعنی دو برس کی زکوٰۃ وصول کرنا۔
(مختصر ازوحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1468   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1468  
1468. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا، عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب ؓ نے صدقہ نہیں دیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:ابن جمیل تو اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ تنگ دست تھا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اسے مالدار کردیا، مگر خالد پر تم زیادتی کرتے ہو کیونکہ اس نے تو اپنی زرہیں اور آلات اللہ کی راہ میں وقف کر رکھے ہیں، رہے عباس بن عبد المطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں ان کی زکاۃ ان پر صدقہ اور اس کے برابر اور بھی (میری طرف سے ہوگی)۔ ابو زنادنے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔یہ ان (محمد ﷺ) کے ذمے ہے اور اس کے برابر اور بھی۔ ابن جریج نے اعرج سے بیان کرنے میں ابو زناد کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1468]
حدیث حاشیہ:
(1)
قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ آثار و حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مصارف زکاۃ میں سے رقاب، غارمین اور فی سبیل اللہ کی وضاحت کریں۔
ان میں سے دو مصارف تو ایسے ہیں جن کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے، یعنی رقاب اور فی سبیل اللہ۔
امام بخاری نے ان کا مفہوم اور مقصد متعین کرنے میں اپنا رجحان بیان کیا ہے، چنانچہ رقاب کے متعلق اختلاف ہے کہ اس سے مراد عام غلام ہیں یا وہ غلام جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ کچھ رقم ادا کرنے پر معاہدہ کر رکھا ہے جنہیں مکاتب کہتے ہیں۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مالِ زکاۃ سے صرف مکاتب غلام ہی آزاد کیے جا سکتے ہیں جبکہ امام بخاری کا موقف ہے کہ مذکورہ آیت مکاتب اور غیر مکاتب تمام قسم کے غلاموں کو شامل ہے، اپنی تائید کے لیے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کا اثر پیش کیا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر دے۔
آپ نے فرمایا:
جان کو آزاد کرو اور گردن کو چھڑاؤ۔
اس نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! ان دونوں سے ایک ہی مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:
نہیں! یہ دونوں الگ الگ ہیں۔
جان کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اکیلے ہی کسی غلام کو آزاد کرو اور گردن چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ تم اس کی قیمت ادا کرنے میں مدد کرو۔
(مسندأحمد: 299/4)
امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مکاتب اگر خود اپنی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے زکاۃ نہیں دینی چاہیے اور اگر اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو مال زکاۃ سے پوری رقم ادا کر دی جائے اور اگر کچھ رقم موجود ہے تو باقی رقم زکاۃ سے ادا کر دی جائے تاکہ اسے پوری آزادی مل جائے۔
(عمدةالقاري: 487/6) (2)
امام بخارى ؒ کا بیان کردہ دوسرا مصرف فی سبیل اللہ ہے۔
اس سے مراد کیا ہے؟ امام بخاری کے بیان کے مطابق جہاد اور حج بھی اس میں شامل ہے، چنانچہ آپ نے حج کے لیے حضرت ابن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ کے آثار کو پیش کیا ہے، نیز آپ نے ابولاس ؓ سے مروی ایک معلق حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسی طرح جہاد کے متعلق بھی حسن بصرى کا قول اور مرفوع حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی زرہوں اور آلات حرب کو اللہ کے رستے میں وقف کر رکھا ہے، اس لیے زکاۃ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔
امام بخاری ؒ کے استدلال کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے وقف کرتے وقت اپنے مال سے زکاۃ نکالنے کی نیت کی تھی کیونکہ مال زکاۃ جہاد میں صرف ہو سکتا ہے اسی بنا پر فی سبیل اللہ میں یہ شامل ہے۔
(3)
حضرت عباس ؓ کے زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بدر میں اپنا اور اپنے بھائی کا فدیہ دینے کی وجہ سے مقروض تھے، انہوں نے اپنے مال کو خود پر قرض خیال کیا اور بحیثیت مقروض زکاۃ کو خود اپنے لیے جائز سمجھا۔
یہ معنی ان الفاظ کے تناظر میں ہیں کہ "هي عليه صدقة۔
۔
۔
" اور ابو زناد کے الفاظ کے مطابق یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی زکاۃ میرے ذمے ہے بلکہ مزید ایک سال کی زکاۃ بھی اور یہی معنی راجح ہیں۔
اس زکاۃ کی ذمہ داری آپ نے کیوں لی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی تھی۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اگرچہ ان روایات کو سندا کمزور کہا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات حسن درجے کی ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(إرواء الغلیل، حدیث: 857)
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عباس کی زکاۃ کی فکر نہ کرو وہ میرے ذمے رہی کیونکہ وہ میرے چچا ہیں اور چچا باپ ہوتا ہے، اس لیے میں نے دے دی یا انہوں نے، ایک ہی بات ہے۔
اس توجیہ کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث (983)
سے ہوتی ہے، تاہم اگر پیشگی زکاۃ وصول کرنے والی روایات صحیح ہوں تو پہلی وجہ راجح ہو گی کیونکہ وہ صریح ہے۔
واللہ أعلم۔
ابن جمیل کے متعلق بھی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل غریب اور نادار تھا، اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا، اب وہ زکاۃ دینے سے روگردانی کرتا ہے، کیا اسلام کے احسان کا یہی بدلہ ہے؟ (فتح الباري: 421/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1468   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.