الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
53. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} وَكَمِ الْغِنَى:
53. باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔
(53) Chapter. The Statement of Allah:
حدیث نمبر: 1477
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إسماعيل بن علية، حدثنا خالد الحذاء، عن ابن اشوع، عن الشعبي، حدثني كاتب المغيرة بن شعبة، قال: كتب معاوية إلى المغيرة بن شعبة، ان اكتب إلي بشيء سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم فكتب إليه، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله كره لكم ثلاثا، قيل وقال وإضاعة المال وكثرة السؤال".حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ‘ ان سے ابن اشوع نے ‘ ان سے عامر شعبی نے۔ کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا۔

Narrated Ash-Shu`bi: The clerk of Al-Mughira bin Shu`ba narrated, "Muawiya wrote to Al-Mughira bin Shu`ba: Write to me something which you have heard from the Prophet (p.b.u.h) ." So Al-Mughira wrote: I heard the Prophet saying, "Allah has hated for you three things: -1. Vain talks, (useless talk) that you talk too much or about others. -2. Wasting of wealth (by extravagance) -3. And asking too many questions (in disputed religious matters) or asking others for something (except in great need). (See Hadith No. 591, Vol. Ill)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 555

   صحيح البخاري2408مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات وأد البنات منع وهات كره لكم قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح البخاري5975مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات منعا وهات وأد البنات كره لكم قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح البخاري1477مغيرة بن شعبةالله كره لكم ثلاثا قيل وقال إضاعة المال كثرة السؤال
   صحيح مسلم4483مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات وأد البنات منعا وهات كره لكم ثلاثا قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح مسلم4485مغيرة بن شعبةالله كره لكم ثلاثا قيل وقال إضاعة المال كثرة السؤال
   صحيح مسلم4486مغيرة بن شعبةالله حرم ثلاثا نهى عن ثلاث حرم عقوق الوالد وأد البنات لا وهات نهى عن ثلاث قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   بلوغ المرام1254مغيرة بن شعبةإن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنعا وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1254    
والدہ کی ایذا رسانی حرام ہے
«وعن المغيرة بن شعبة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏إن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنعا وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال ‏‏‏‏ متفق عليه»
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کر دیا ہے ماؤں کو ستانا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا اور (خود) کچھ نہ دینا اور (دوسروں سے کہنا) لا مجھے دے اور تمہارے لیے ناپسند کیا (یہ کہنا کہ) یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اور زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1254]
تخریج:
[بخاري 5975]،
[مسلم/الاقضية 12]

مفردات:
«عقوق» مصدر ہے جو کہ «بر» کی ضد ہے۔ «برالوالدين» والدین سے اچھا سلوک «عقوق الوالدين» ان کا دل دکھانا، بدسلوکی کرنا «عق» کا لفظی معنی قطع کرنا ہے۔
«الامهات» «امهة» کی جمع ہے۔ «ام» ماں «امة» اور «امهة» بھی کہتے ہیں۔ «ام» کی جمع «امات» ہے۔ جمع کے صیغے میں یہ فرق ہے کہ «امهات» صرف ذوی العقول کے لئے آتا ہے جبکہ «امات» غیر ذوی العقول کے لئے۔ کبھی کبھی اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ [لسان العرب]
«منعا» اپنے ذمے جو چیزیں لازم ہیں ادا نہ کرنا۔ مثلاً مال، حسن سلوک وغیرہ
«هَاتِ» فعل امر بمعنی «آت» یعنی لا دے۔ بعض کہتے ہیں «آت» کے ہمزہ کو ہاء سے بدل دیا ہے۔ «آتي» «يوتي» دینا یعنی دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور اپنے لیے ہر چیز کا مطالبہ کرتے چلے جانا۔

فوائد:
➊ اس حدیث میں والدہ کے دل دکھانے کا ذکر خاص طور پر کیا ہے حالانکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ ہی احسان کا حکم ہے اور والد کا دل دکھانا بھی حرام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے کیونکہ وہ اولاد کی مشقت زیادہ اٹھاتی ہے۔
«وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ» [31-لقمان:14]
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق وصیت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔
صحیحین کی ایک حدیث میں آپ نے تین دفعہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی چوتھی دفعہ باپ کا ذکر فرمایا۔ ماں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی کیا کہ کمزور ہونے کی وجہ سے اولاد اسے زیادہ ستاتی ہے۔
«عقوق» سے مراد اولاد کا ہر وہ قول یا فعل ہے جس سے ماں باپ کو تکلیف ہوتی ہو بشرطیکہ وہ بھی ضد میں نہ آئے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«‏‏‏‏رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا» ‏‏‏‏ [17-الإسراء:25]
تمہارا رب اس چیز کو خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح ہو گے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
اسی طرح شرک یا اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں والدین کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ «لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق» خالق کی نافرمانی میں مخلوق کا حکم ماننا جائز نہیں [شرح السنة 44/10، حديث: 2455]
«وواد البنات» اہل جاہلیہ عام طور پر بیٹیوں کو اس لیے زندہ درگور کر دیتے تھے کہ جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں اور اس لیے بھی کہ لڑکے تو کمائیں گے جنگ میں معاون بنیں گے لڑکیاں تو بوجھ ہی بوجھ ہیں۔ کئی لوگ فقر کے ڈر سے اولاد کو قتل کر دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ» ‏‏‏‏ اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو۔ قدیم جاہلیت میں یہ کام انفرادی طور پر ہوتا تھا۔ جاہلیت جدیدہ میں حکومتیں منظم طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں مثلاً چین کے دہریوں نے دو بچوں سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اگر کسی عورت کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہو جائے تو زچہ خانے میں ہی حکومت کی مقرر کردہ نرسیں اور ڈاکٹر اسے زہر کا ٹیکا لگا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے کافر ملک مسلمان ممالک میں بھی یہ قانون نافذ کروانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ ابھی تک ترغیب و تحریص سے کام لیا جا رہا ہے اگلا قدم جبر کا ہو گا افسوس کہ مسلمان حکمران بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور اس کو رازق سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو رزق کے ٹھیکیدار سمجھ کر مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہو چکے ہیں اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے۔
«وَمَنْعا وهات» خود کسی کو کچھ نہ دینا اور دوسروں سے ہر چیز کا تقاضا ہی کرتے چلے جانا جس طرح پیروں کا لطیفہ مشہور ہے کہ تم آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ یہ نہایت ہی خست بات ہے۔
«قيل و قال» یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اس صورت میں یہ فعل ماضی مجہول اور معروف کے صیغے ہیں یہ دونوں لفظ اسم کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں «قُلْتُ قَوْلاً وقيلا وقالا» میں نے بات کہی۔ بعض اوقات «قيل و قال» فعل کے لفظ سے استعمال ہوتا ہے مگر مراد اسم ہوتا ہے۔
➏ تمہارے لیے «قيل و قال» کو ناپسند کیا اس میں کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) لوگوں کے متعلق سنی سنائی باتیں بلا تحقیق آگے پہنچانا یا تحقیق کر کے دوسروں کو سناتے رہنا پہلی صورت میں جھوٹ اور بہتان کا مرتکب ہو گا دوسری صورت میں غیبت اور چغلی کا ارتکاب کرے گا کیونکہ عموماً لوگ پسند نہیں کرتے کہ ان کے متعلق بات کی جائے۔
(ب) لوگوں کے عیوب اور کمزوریاں بیان کرتے چلے جانے سے انسان اپنی حالت سے بے پروا ہو جاتا ہے اس لیے قیل و قال کو ناپسند فرمایا صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من قال هلك الناس فهو اهلكهم» ‏‏‏‏ جو کہے کہ لوگ برباد ہو گئے وہ ان سے زیادہ برباد ہے۔ [مسم البر 139]
(ج) دین کے بارے میں لوگوں کے اختلاف کو بیان کرتے چلے جانا۔ فلاں امام نے یہ کہا فلاں نے یہ، بعض علماء یوں بیان فرماتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے وغیرہ وغیرہ اور پختہ اور اصل بات کا فیصلہ نہ کرنا۔
اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے ساتھ دوسروں کے اقوال ذکر کرنا مسلمان کو زیب ہی نہیں دیتا خصوصاً جب وہ کتاب و سنت کے خلاف ہوں اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سبکی ہوتی ہے۔
«دعوا كل قول عند قول محمد ... فما آمن فى دينه كمخاطر»
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے سامنے ہر بات چھوڑ دو کیونکہ اپنے دین میں امن والا آدمی اس شخص کی طرح نہیں جو خطرے میں پڑا ہوا ہے۔
ہاں اگر رد کے لیے ایسے اقوال ذکر کئے جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر وہ قیل قال نہیں ہو گا۔ بلکہ قیل و قال کا رد ہو گا۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ قیل و قال سننے والا پریشان ہو جاتا ہے کہ میں ان اقوال میں سے کون سا قول اختیار کروں اور آخر کار دین سے ہی منحرف ہو جاتا ہے۔
تیسری یہ کہ جب انسان زیادہ قیل و قال ذکر کرتا ہے تو بہت سی باتیں بغیر تحقیق کر جاتا ہے جس سے اس کا شمار جھوٹے لوگوں میں ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كفي بالمرء كذبا ان يحدث بكل ما سمع» [مقدمه صحيح مسلم] آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو کچھ سنے آگے بیان کر دے۔
چوتھی یہ کہ قیل و قال میں بہت سی باتیں ایسی کرے گا جن کا اسے نہ دین میں کوئی فائدہ ہے نہ دنیا میں اس لیے زیادہ باتیں کرنا ہے ہی نامناسب۔ فرمان الہی ہے:
«وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» [23-المؤمنون:3]
اور (ایمان والے وہ ہیں) جو بے فائدہ باتوں سے روگردان رہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه»
یہ بات آدمی کے اسلام کے حسن میں سے ہے کہ وہ بے مقصد چیزیں چھوڑ دے۔
«وكثره السوال» اس میں بھی کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوال کرنا اس لیے منع تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کسی سوال کرنے سے مسلمانوں کے لئے وہ چیزیں حرام ہو جائیں جو سکوت کی وجہ سے جائز تھیں۔
«لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ» [5-المائدة:101]
ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔
(ب) بلا ضرورت لوگوں کے حالات کی جستجو کرنا ان کے ذاتی معاملات کے متعلق پوچھنا خواہ مخواہ کا تجسس ناپسندیدہ عمل ہے۔
(ج) ایسے سوال کرنا جن کا وجود ہی نہیں محض فرضی صورتیں صورتیں ہیں یا ابھی تک وجود میں نہیں آئیں سلف صالحین اسے سخت ناپسند فرماتے تھے۔ مثلاً بعض رائے پرستوں نے سوال پیدا کیا کہ اگر کتے نے بکری سے جفتی کی اور بچہ مشترک پیدا ہوا تو حلال ہے یا حرام؟ پھر خود ہی جواب دیا کہ دیکھنا چاہیے کہ گوشت اور گھاس سامنے رکھ کر اگر گاس کھاتا ہے تو حلال ہے اور گوشت کھاتا ہے تو حرام اگر دونوں کھائے تو اس کو مارا جائے گا اگر بھونکے تو کتے کے حکم میں ہے ورنہ بکری کے اگر دونوں آوازیں کرتا ہو تو ذبح کیا جائے اگر اوجھری نکلے تو کھایا جائے ورنہ نہیں . . .
ان لوگوں کو محض سوال پیدا کرنے اور ان کا جواب گھڑنے سے غرض تھی یہ نہیں کہ کہیں ایسا ہوا بھی ہے یا ہو سکتا بھی ہے۔ بتائیے کتے اور بکری کی جفتی سے پیدا ہونے والا جانور کہاں پایا جاتا ہے؟
(د) علماء کو پھنسانے اور نیچا دکھانے کے لیے سوال کرنا اکرام مسلم کے خلاف ہے اور اکرام علم کے بھی خلاف ہے۔
(ھ) لوگوں سے مال یا دوسری چیزیں مانگنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے بیعت کی کہ تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ ان میں سے کئی حضرات نے اس عہد کی اتنی پابندی کی کہ اگر گھوڑے سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی کو پکڑانے کے لیے نہ کہتے بلکہ خود اتر کر پکڑتے اور دوبارہ سوار ہو جاتے [مسلم حديث 1043]
«واضاعة المال» مال ضائع کرنا، ناجائز جگہوں میں خرچ کرنا یا اپنی حیثیت یا موقع کی مناسبت سے بڑھ کر خرچ کرنا مال کو ضائع کرنا ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 72   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1477  
1477. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ تم مجھے ایسی بات لکھ کرارسال کرو جو تم نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو، انھوں نے جواباً لکھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزیں ناپسند کرتاہے:ادھراُدھر کی فضول باتیں کرنا، مال کو ضائع کرنا اور باکثرت سوال کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1477]
حدیث حاشیہ:
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔
اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔
اسی طرح فضول خرچی کرنا بھی انسان کی بڑی بھاری حماقت ہے جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
اسی لیے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ نہ بخیل بنو اور نہ اتنے ہاتھ کشادہ کرو کہ پریشان حالی میں مبتلا ہوجاؤ۔
درمیانی چال بہر حال بہتر ہے۔
تیسرا عیب کثرت کے ساتھ دست سوال دراز کرنا یہ بھی اتنا خطرناک مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بُری طرح سے اس میں گرفتار ہوکر دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے یہ حدیث لکھ کر حضرت امیر معاویہ ؓ کو پیش کیا۔
اشارہ تھا کہ آپ کی کامیابی کا راز اس حدیث میں مضمر ہے۔
جس میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔
آنحضرت ﷺ کے جوامع الکلم میں اس حدیث شریف کو بھی بڑا مقام حاصل ہے۔
اللہ پاک ہم کو یہ حدیث سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1477   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1477  
1477. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ تم مجھے ایسی بات لکھ کرارسال کرو جو تم نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو، انھوں نے جواباً لکھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزیں ناپسند کرتاہے:ادھراُدھر کی فضول باتیں کرنا، مال کو ضائع کرنا اور باکثرت سوال کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1477]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکثرت سوال کرنے کے متعلق متعدد احتمالات ہیں، مثلا:
مال جمع کرنے کی نیت سے بکثرت سوالات کرنا، متشابہ اور پہیلی نما سوال کرنا، لایعنی، فضول اور بے مقصد سوالات کرنا۔
ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا جو وقوع پذیر نہیں ہوئے۔
امام بخاری ؒ نے عموم کے پیش نظر پہلے معنی مراد لیے ہیں، اسی صورت میں یہ حدیث قائم کردہ عنوان کے مطابق ہو گی۔
(2)
قیل و قال سے فضول اور لایعنی قسم کی باتیں مراد ہیں اسی طرح دینی معاملات میں تحقیق کے بغیر گفتگو کرنا اور نقل روایات میں بے احتیاطی کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1477   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.