الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Injunctions about Witr
23. باب الدُّعَاءِ
23. باب: دعا کا بیان۔
Chapter: Regarding Supplication (Ad-Du’a).
حدیث نمبر: 1481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، اخبرني ابو هانئ حميد بن هانئ، ان ابا علي عمرو بن مالك حدثه، انهسمع فضالة بن عبيد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو في صلاته لم يمجد الله تعالى، ولم يصل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عجل هذا" ثم دعاه، فقال له او لغيره:" إذا صلى احدكم فليبدا بتحميد ربه جل وعز والثناء عليه، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يدعو بعد بما شاء".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُسَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ لَمْ يُمَجِّدِ اللَّهَ تَعَالَى، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِلَ هَذَا" ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ جَلَّ وَعَزَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ".
صحابی رسول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدعوات 65 (3477)، سنن النسائی/السہو 48 (1285)، (تحفة الأشراف:11031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/18) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Fudalah ibn Ubayd,: The Messenger of Allah ﷺ heard a person supplicating during prayer. He did not mention the greatness of Allah, nor did he invoke blessings on the Prophet ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ said: He made haste. He then called him and said either to him or to any other person: If any of you prays, he should mention the exaltation of his Lord in the beginning and praise Him; he should then invoke blessings on the Prophet ﷺ; thereafter he should supplicate Allah for anything he wishes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1476


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (930)
أخرجه الترمذي (3477 وسنده حسن)
   سنن النسائى الصغرى1285فضالة بن عبيدمجد الله وحمده وصلى على النبي فقال رسول الله ادع تجب وسل تعط
   جامع الترمذي3476فضالة بن عبيدإذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو أهله وصل علي ثم ادعه
   جامع الترمذي3477فضالة بن عبيدإذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد الله والثناء عليه ثم ليصل على النبي ثم ليدع بعد بما شاء
   سنن أبي داود1481فضالة بن عبيدإذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد ربه والثناء عليه ثم يصلي على النبي ثم يدعو بعد بما شاء
   بلوغ المرام248فضالة بن عبيد عجل هذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 248  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنی نماز میں دعا کرتے سنا۔ نہ تو اس نے اللہ کی حمد کی اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جلدی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور سمجھایا کہ تم میں سے کوئی جب دعا مانگنے لگے تو پہلے اسے اپنے رب کی حمد و ثنا کرنی چاہیئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیئے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔
اسے احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 248»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء، حديث:1481، والترمذي، الدعوات، حديث:3476-3477، والنسائي، السهو حديث:1285، وأحمد:6 /18، وابن حبان (الإحسان):3 /208، حديث:1957، والحاكم:1 /230.»
تشریح:
1.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا جلدی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
دعا تو نام ہی عجز و انکسار اور اظہار تذلل کا ہے‘ اس لیے جب دعا کی جائے تو پورے اہتمام و اطمینان سے کی جائے۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا جائے‘ پھر دعا کی جائے۔
2.یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تشہد کے عین مطابق ہے کہ تشہد میں بھی پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا ہے۔
3. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ حدیث تشہد کے بعد لا کر اشارہ کیا ہے کہ اس کا محل تشہد ہے۔
4 تشہد میں پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ اور پھر اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَکی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ہی کی بدولت ہمیں نماز کا طریقہ و سلیقہ حاصل ہوا۔
اس میں خطاب کا لفظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ حکائی ہے جیسا کہ علامہ ملا علی قاری نے شرح مشکاۃ میں کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ کلمات یوں ہی پڑھتے تھے‘ نیز آپ کے انتقال کے بعد بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اَلسَّلاَمُ عَلَی النَّبِيِّ کے الفاظ پڑھنے لگے تھے۔
(صحیح البخاري‘ الاستئذان‘ باب الأخذ بالیدین‘ حدیث:۶۲۶۵) خطاب کبھی حاضر فی الذہن کے لیے بھی ہوتا ہے۔
بہر نوع تشہد میں اس خطاب سے اہل خرافات کا وجودی و حسی حاضر و ناظر مراد لینا غلط اور بے بنیاد ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ فا پر فتحہ اور ض مخفف ہے۔
اور عبید‘ عبد سے تصغیر ہے۔
سلسلۂ نسب یوں ہے: فضالہ بن عبید بن نافذ بن قیس۔
ان کی کنیت ابومحمد تھی۔
انصار کے قبیلہ اوس کے فرد تھے۔
پہلا معرکہ جس میں یہ شریک ہوئے معرکہ ٔاُحد تھا۔
اس کے بعد سب غزوات میں شریک رہے۔
بیعت رضوان میں شامل تھے۔
شام کی طرف نقل مکانی کر گئے تھے اور دمشق میں سکونت پذیر ہوئے۔
جس زمانے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صفین کی جنگ کے لیے نکلے اس وقت یہ وہاں کے قاضی (جج) تھے۔
۵۶ ہجری میں انھوں نے وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 248   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3477  
´باب:۔۔۔`
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز کے اندر ۱؎ دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہ بھیجا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے جلدی کی، پھر آپ نے اسے بلایا، اور اس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کر کے فرمایا، جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھ چکے ۲؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجے، پھر اس کے بعد وہ جو چاہے دعا مانگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3477]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نماز کے اندر سے مراد ہے کہ آخری رکعت میں درود کے بعد اور سلام سے پہلے نماز میں دعاء کا یہی محل ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ دعاء میں کوشش کرو۔

2؎:
یعنی:
پوری نماز سے فارغ ہو کر صرف سلام کرنا باقی رہ جائے،
یہ معنی اس لیے لینا ہو گا کہ اسی حدیث میں آ چکا ہے کہ پہلے شخص نے نماز کے اندر دعاء کی تھی اس پر آپﷺ نے فرما یا تھا کہ اس نے صلاۃ (درود) نہ بھیج کر جلدی کی،
نیز دعا اللہ سے قرب کے وقت زیادہ قبول ہوتی ہے اور بندہ سلام سے پہلے اللہ سے بنسبت سلام کے بعد زیادہ قریب ہوتا ہے،
ویسے سلام کے بعد بھی دعا کی جا سکتی ہے،
مگر شرط وہی ہے کہ پہلے حمدوثنا اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کر لے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3477   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1481  
´دعا کا بیان۔`
صحابی رسول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1481]
1481. اردو حاشیہ: نماز میں تشہد کی ترتیب بھی یہی ہے۔ اور نماز کے علاوہ دعاؤں کا ادب بھی یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1481   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.