الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
13. بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْبَرَازِ:
13. باب: عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟
(13) Chapter. The going out of women for answering the call of nature.
حدیث نمبر: 147
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا زكرياء، قال: حدثنا ابو اسامة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" قد اذن ان تخرجن في حاجتكن"، قال هشام: يعني البراز.حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" قَدْ أُذِنَ أَنْ تَخْرُجْنَ فِي حَاجَتِكُنَّ"، قَالَ هِشَامٌ: يَعْنِي الْبَرَازَ.
ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیویوں سے) فرمایا کہ تمہیں قضاء حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ حاجت سے مراد پاخانے کے لیے (باہر) جانا ہے۔

Narrated `Aisha: The Prophet said to his wives, "You are allowed to go out to answer the call of nature. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 149

   صحيح البخاري4795عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن
   صحيح البخاري5237عائشة بنت عبد اللهأذن الله لكن أن تخرجن لحوائجكن
   صحيح البخاري147عائشة بنت عبد اللهأذن أن تخرجن في حاجتكن
   صحيح مسلم5668عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 147  
´عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَدْ أُذِنَ أَنْ تَخْرُجْنَ فِي حَاجَتِكُنَّ . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیویوں سے) فرمایا کہ تمہیں قضاء حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْبَرَازِ:: 147]

تشریح:
آیت حجاب کے بعد بھی بعض دفعہ رات کو اندھیرے میں عورتوں کا جنگل میں جانا ثابت ہے۔ [فتح الباري]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 147   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:147  
147. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں: آپ نے (اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے) فرمایا: (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) تمہیں اپنی حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی ہے۔ہشام کہتے ہیں: اس سے قضائے حاجت کے لیے گھر سے نکلنا مراد ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:147]
حدیث حاشیہ:

عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقوں کا رخ کرتے تھے حتی ٰ کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیهن اجمعین بھی اس مقصد کے لیے باہر جانے کی عادی تھیں۔
عربوں کے ہاں مکانات میں قضائے حاجت کے انتظام کو ناپسند خیال کیاجاتا تھا۔
اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ ازواج مطہرات اگر اپنی ضرورت کے پیش نظر باہرجائیں تو اس کی کیا صورت ہو؟ اگر دن کے وقت جائیں یا بے حجاب نکلیں تو یہ ان کے خلاف شان ہے، چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ عورتیں ایک الگ میدان میں رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے جاتی تھیں اورانھوں نے اپنی عادت بھی کچھ ایسی بنالی تھی کہ دن کے اوقات میں اس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اسی صورت کا جواز ثابت فرمایا ہے۔

پردے سے متعلق آیات کے نزول میں کچھ تعارض ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک آیت حجاب نازل نہیں ہوئی تھیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب نازل ہوچکی تھی، (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4795)
نیز اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد پورا ہو گیا، جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا منشا پورا نہ ہوسکا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں قضائے حاجت کے لیے باہرجانے کی اجازت ہے۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منشا کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ آیت حجاب کے نزول کا سبب بنا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب کا نزول سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے دن ہوا، چنانچہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4791)
دراصل حجاب کی دو قسمیں ہیں:
حجاب وجوہ:
(چہرے کا پردہ)
عورت جب غیر محرم کے سامنے آئے تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر آئے۔
حجاب اشخاص:
(پورے وجود کا پردہ)
عورت کی شخصیت ہی نظر نہ آئے،یعنی گھر سے باہر نہ نکلے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عليهن اجمعین کو پردے کا حکم فرما دیں، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔
اس سے ان کی خواہش پوری ہوگئی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4790)
آیت حجاب سورۃ الاحزاب: 53 ہے اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے موقع پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے یہ حجاب وجوہ ہے۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری خواہش تھی کہ حجاب وجوہ کی طرح حجاب اشخاص کا حکم بھی آجائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوراستے میں ٹوکنا، اسی تناظرمیں تھا لیکن اس سلسلے میں ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ بذریعہ وحی بتایا گیا کہ عورتوں کو قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت ہے۔
اس تفصیل سے تضاد کی تمام صورتیں ختم ہوجاتی ہیں، تاہم اس کے بعد گھروں میں قضائے حاجت کے لیے بندوبست کر دیا گیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تھی بلکہ آپ کے اندر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہیں زیادہ غیرت تھی، لیکن آپ اللہ کی وحی کے بغیر کسی مصلحت پر عمل نہیں فرمانا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجود وحی کے آنے تک پردے کی بابت کوئی حکم نہیں دیا۔
(فتح الباري: 1/ 327' 328)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 147   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.