الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
18. بَابُ النَّهْيِ عَنْ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ:
18. باب: داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت ہے۔
(18) Chapter. It is forbidden to clean the private parts with the right hand.
حدیث نمبر: 153
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا معاذ بن فضالة، قال: حدثنا هشام هو الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا شرب احدكم فلا يتنفس في الإناء، وإذا اتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه، ولا يتمسح بيمينه".حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، وَإِذَا أَتَى الْخَلَاءَ فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔

Narrated Abu Qatada: Allah's Apostle said, "Whenever anyone of you drinks water, he should not breathe in the drinking utensil, and whenever anyone of you goes to a lavatory, he should neither touch his penis nor clean his private parts with his right hand."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 155

   صحيح البخاري5630حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء إذا بال أحدكم فلا يمسح ذكره بيمينه إذا تمسح أحدكم فلا يتمسح بيمينه
   صحيح البخاري153حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء إذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه لا يتمسح بيمينه
   صحيح مسلم615حارث بن ربعييتنفس في الإناء يمس ذكره بيمينه أن يستطيب بيمينه
   جامع الترمذي1889حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء
   سنن النسائى الصغرى48حارث بن ربعييتنفس في الإناء يمس ذكره بيمينه أن يستطيب بيمينه
   سنن النسائى الصغرى47حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في إنائه إذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه لا يتمسح بيمينه
   بلوغ المرام83حارث بن ربعيا يمسن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول،‏‏‏‏ ولا يتمسح من الخلاء بيمينه،‏‏‏‏ ولا يتنفس في الإناء
   بلوغ المرام904حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 83  
´دائیں ہاتھ سے اپنے عضو کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يمسن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول،‏‏‏‏ ولا يتمسح من الخلاء بيمينه،‏‏‏‏ ولا يتنفس فى الإناء . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو ہرگز نہ چھوئے اور قضائے حاجت کے بعد سیدھے ہاتھ سے استنجاء بھی نہ کرے۔ نیز پانی پیتے وقت اس میں سانس بھی نہ لے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 83]

لغوی تشریح:
«لَا یَمَسَّنَّ» «مَسّ» سے نہی کا صیغہ ہے اور نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔
«وَلَا یَتَمَسَّحُ» یعنی استنجا نہ کرے۔
«تَمَسُّح» کے معنی ہیں: ہاتھ کو پھیرنا اور ملنا تاکہ بہنے والی گندگی دور ہو جائے، یا ناپاک چیز سے لتھڑی ہوئی شے کو ہاتھ سے صاف کرنا۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث میں تین مسئلے بیان کیے گئے ہیں:
➊ ایک یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے۔ دوسرا یہ کہ اس ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ ایسا کرنا حرام بھی ہے اور سوء ادب اور کم ظرفی بھی۔ اور تیسرا یہ کہ کوئی مشروب وغیرہ پیتے وقت برتن میں سانس نہ لے۔
➋ برتن میں سانس لینا اس لیے ممنوع ہے کہ سانس کے ذریعے سے خارج ہونے والے جراثیم پیے جانے والے مشروب وغیرہ میں شامل ہو کر معدے میں داخل ہوں گے۔ یہ جراثیم طبی تحقیق کی رو سے صحت کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔
➌ جس حدیث میں سانس لینے کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پینے والا ایک ہی سانس میں غٹ غٹ نہ چڑھا جائے بلکہ تین دفعہ پیے اور سانس باہر نکالے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 83   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 153  
´داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، وَإِذَا أَتَى الْخَلَاءَ فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ . . .»
. . . عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ النَّهْيِ عَنْ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ: 153]

تخريج الحديث:
[151۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 18 باب النهي عن الاستنجاء باليمين 153، مسلم 267، ابن ماجه 310]
لغوی توضیح:
«لَا يَتَنَفَّسْ» سانس نہ لے۔
«لَا يَتَمَسَّحْ» استنجاء نہ کرے۔ معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 151   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 47  
´داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئیے تو اپنے برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کے لیے آئے تو اپنے داہنے ہاتھ سے ذکر (عضو تناسل) نہ چھوئے، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 47]
47۔ اردو حاشیہ:
➊ برتن میں سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ پیتے پیتے سانس لے، یہ ممنوع ہے۔ شاید یہ ممانعت اس لیے ہو کہ اس صورت میں ناک سے سانس کے ساتھ غلاظت خارج ہونے کا احتمال ہوتا ہے کہ جس سے مشروب آلودہ ہو جائے گا، نیز سانس کے ساتھ پھیپھڑے کے فاسد مادوں کی آمیزش ہوتی ہے وہ بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے، نیز اس میں جانوروں سے مشابہت ہے، وہ پیتے پیتے سانس لیتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کیا جائے۔
➋ چونکہ دایاں ہاتھ کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور عقل سلیم بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ کھانے اور استنجے کے لیے ایک ہی ہاتھ کا استعمال نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 47   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1889  
´پیتے وقت برتن میں سانس لینے کی کراہت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1889]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث بظاہر انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے معارض ہے (أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا) یعنی نبی اکرم ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
ابوقتادہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی برتن سے پانی پیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹائے بغیر برتن میں سانس لیتا ہے تو یہ مکروہ ہے،
اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے جدا رکھتے تھے،
اس توجیہ سے دونوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1889   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:153  
153. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے، نیز جب بیت الخلا آئے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوئے اور نہ اس سے استنجا کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:153]
حدیث حاشیہ:

قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ استنجا کے لیے دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قدرت نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت دی ہے۔
اس لیے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس سے ادنیٰ اور ارذل کام نہ لیے جائیں۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے جب کھانا کھاتے وقت استنجا سے متعلقہ بات یاد آئے گی توطبیعت میں تکدر اور ناگواری پیدا ہوگی۔
اہل ظاہر کے نزدیک یہ نہی حرمت کے لیے ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگردائیں ہاتھ سے استنجا کیا تو اس سے طہارت نہیں ہوگی جبکہ جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ اس کا تعلق آداب سے ہے۔
(عمدة القاري: 420/2)

حدیث میں استنجا کے متعلق دو جملے استعمال ہوئے ہیں:
پہلا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے عضو مستور کو نہ چھوئے۔
اس کا تعلق پیشاب سے ہے۔
اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔
اس سے مراد ہے کہ فراغت کے بعد دائیں ہاتھ کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
پیشاب کرتے وقت کبھی کبھی چھینٹوں سے بچنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور فراغت کے بعد استنجا میں ڈھیلے یا پانی استعمال کرتے وقت ہاتھ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
حدیث نے وضاحت سے بتا دیا کہ ایسی چیزوں میں دائیں ہاتھ کا استعمال نامناسب ہے۔
یہ اس ہاتھ کی شرافت ومنزلت کے خلاف ہے۔
(عمدة القاري: 420/2)

پانی پیتے وقت بھی برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی گندی بھاپ پانی کو مکدر کردیتی ہے اور پانی دوسروں کے پینے کے قابل نہیں رہتا، نیز سانس لینے سے ممکن ہے کہ لعاب دہن یا ناک کی رطوبت پانی میں گر جائے۔
اس کے علاوہ یہ حیوانوں کی عادت ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ پانی کے برتن میں منہ ڈال دیتے ہیں تو پانی بھی پیتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں، لہٰذا شریعت نے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرما دیا۔
اسلامی ادب یہ ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کردیا جائے اور تین سانس لے کر پانی پیا جائے۔
(فتح الباري: 333/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 153   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.