الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
85. بَابُ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ:
85. باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔
(85) Chapter. Fasting on the Day of Arafa (at Arafat).
حدیث نمبر: 1658
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن الزهري، حدثنا سالم، قال: سمعت عميرا مولى ام الفضل، عن ام الفضل،" شك الناس يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم، فبعثت إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشراب فشربه".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الْفَضْلِ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ،" شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے سالم ابوالنصر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام فضل کے غلام عمیر سے سنا، انہوں نے ام فضل رضی اللہ عنہا سے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا، اس لیے میں نے آپ کو پینے کے لیے کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔

Narrated Um Al-Fadl: The people doubted whether the Prophet was observing the fast on the Day of `Arafat, so I sent something for him to drink and he drank it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 720

   صحيح البخاري5636لبابة بنت الحارثشكوا في صوم النبي يوم عرفة فبعثت إليه بقدح من لبن فشربه
   صحيح البخاري5604لبابة بنت الحارثشك الناس في صيام رسول الله يوم عرفة فأرسلت إليه بإناء فيه لبن فشرب
   صحيح البخاري5618لبابة بنت الحارثأرسلت إلى النبي بقدح لبن وهو واقف عشية عرفة فأخذ بيده فشربه
   صحيح البخاري1988لبابة بنت الحارثناسا تماروا عندها يوم عرفة في صوم النبي فقال بعضهم هو صائم وقال بعضهم ليس بصائم فأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره فشربه
   صحيح البخاري1658لبابة بنت الحارثبعثت إلى النبي بشراب فشربه
   صحيح البخاري1661لبابة بنت الحارثناسا اختلفوا عندها يوم عرفة في صوم النبي فقال بعضهم هو صائم وقال بعضهم ليس بصائم فأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره فشربه
   صحيح مسلم2635لبابة بنت الحارثشك ناس من أصحاب رسول الله في صيام يوم عرفة ونحن بها مع رسول الله فأرسلت إليه بقعب فيه لبن وهو بعرفة فشربه
   صحيح مسلم2632لبابة بنت الحارثناسا تماروا عندها يوم عرفة في صيام رسول الله فقال بعضهم هو صائم وقال بعضهم ليس بصائم فأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره بعرفة فشربه
   سنن أبي داود2441لبابة بنت الحارثأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره بعرفة فشرب
   مسندالحميدي341لبابة بنت الحارث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1658  
1658. حضرت ام فضل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عرفہ کے دن لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب بھیجا۔ آپ نے اسے نوش جاں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1658]
حدیث حاشیہ:
عرفہ کا روزہ بہت ہی بڑا وسیله ثواب ہے دوسری احادیث میں اس کے فضائل مذکور ہیں۔
حدیث مذکور ام الفضل کے ذیل شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری مدظلہ فرماتے ہیں:
قال الحافظ:
قوله "في صيام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " هذا يشعر بأن صوم يوم عرفة كان معروفاً عندهم معتاداً لهم في الحضر، وكان من جزم بأنه صائم استند إلى ما ألفه من العبادة، ومن جزم بأنه غير صائم قامت عنده قرينة كونه مسافر أو قد عرف نهيه عن صوم الفرض في السفر فضلاً عن النفل۔
(مرعاة)
لوگوںمیں رسول کریم ﷺ کے روزہ کے متعلق اختلاف ہوا۔
اس سے ظاہر ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ان دنوں ان کے ہاں معروف تھا اور حضر میں اسے بطور عادت سب رکھا کرتے تھے، اس لیے جن لوگوں کو آپ کے روزہ دار ہونے کا یقین ہوا وہ اس بنا پر کہ وہ آنحضرت ﷺ کی عبادت گزاری کی الفت سے واقف تھے اور جن کو نہ رکھنے کا خیال ہوا وہ اس بنا پر کہ آپ مسافر تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ آپ نے سفر میں ایک دفعہ فرض روزہ ہی سے منع فرما دیا تھا تو نفل کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
اس روایت میں دودھ بھیجنے والی حضرت ام الفضل بتلائی گئی ہیں مگر مسلم شریف کی روایت میں حضرت میمونہ کا ذکر ہے کہ دودھ انہوں نے بھیجا تھا۔
اس پر حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں:
فيحتمل التعدد، ويحتمل أنهما أرسلنا معاً، فنسب ذلك إلى كل منهما، لأنهما كانتا أختين، وتكون ميمونة أرسلت بسؤال أم الفضل لها في ذلك لكشف الحال في ذلك، ويحتمل العكس۔
(مرعاة)
یعنی احتمال ہے کہ دو نے الگ الگ دودھ بھیجا ہو اور یہ ہر ایک کی طرف منسوب ہو گیا اس لیے بھی کہ وہ دونوں بہن تھیں اور میمونہ نے اس وقت بھیجا ہو جب کہ ام الفضل نے ان سے تحقیق حال کا سوال کیا اور اس کا عکس بھی محتمل ہے۔
اور دودھ اس لیے بھیجا گیا کہ یہ غذا اور پانی ہر دو کا کام دیتا ہے، اسی لیے کھانا کھانے پر آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللهمَّ بارِكْ لي فيه، وأَطعِمْني خيرًا منه (یا اللہ! مجھ کو اس میں برکت بخش اور اس سے بھی بہتر کھلائیو)
اور دودھ پی کر آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللهمَّ بارِكْ لي فيه، وزِدْنا منهُ (یا اللہ! مجھے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے زیادہ نصیب فرمائیو۔
)

ابوقتادہ کی حدیث جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس میں مذکور ہے کہ عرفہ کا روزہ اگلے اور پچھلے سالوں کے گناہ معاف کرا دیتا ہے۔
ہر دو احادیث میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ روزہ عرفات میں حاجیوں کے لیے رکھنا منع ہے تاکہ ان میں وقوف عرفہ کے لیے ضعف پیدا نہ ہو جو حج کا اصل مقصد ہے اور غیر حاجیوں کے لیے یہ روزہ مستحب اور باعث ثواب مذکور ہے، وقال ابن قدامة (ص 176)
أکثر أهل العلم یستحبون الفطر یوم عرفة بعرفة و کانت عائشة و ابن الزبیر یصومانه و قال قتادة لا بأس به إذا لم یضعف عن الدعاءالخ (مرعاة)
یعنی اکثر اہل علم نے اسی کو مستحب قرار دیا ہے کہ عرفات میں یہ روزہ نہ رکھا جائے اور حضرت عائشہ ؓ اور ابن زبیر ؓ یہ روزہ وہاں بھی رکھا کرتے تھے، اور قتادہ نے کہا کہ اگر دعا میں کمزوری کا خطرہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنے میں حاجی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر افضل نہ رکھنا ہی ہے۔
حدیث ام فضل کو حضرت امام بخاری ؓ نے حج اور صیام اور اشربہ میں بھی ذکر فرما کر اس سے متعدد مسائل کو ثابت فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1658   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1658  
1658. حضرت ام فضل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عرفہ کے دن لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب بھیجا۔ آپ نے اسے نوش جاں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1658]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر انہی الفاظ کے ساتھ کتاب الصوم میں عنوان قائم کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1988) (2)
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت ام فضل ؓ کے پاس لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق اختلاف کیا، کچھ کہنے لگے کہ آج آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں۔
حضرت ام فضل ؓ نے حقیقت معلوم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے اسے پی لیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1661) (3)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162)
تاہم حاجی کے لیے بہتر ہے کہ وہ عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے۔
(4)
ابن بطال نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن روزے کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ نے یہ روزہ نہیں رکھا اور میں بھی نہیں رکھتا۔
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ رکھنا چاہے وہ ہمارا ساتھی نہ بنے کیونکہ یہ دن اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور کھانے پینے کا ہے۔
حضرت عطاء نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ نہ رکھے تاکہ حج کے اعمال ادا کرنے میں اور اذکار وغیرہ کی ادائیگی میں کمزوری نہ ہو اسے روزے دار جیسا ثواب ملتا ہے۔
حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جب دعا کرنے میں کمزوری نہ ہو تو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حج کرنے والا روزہ نہ رکھے، البتہ دوسروں کے لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ روزہ رکھیں۔
(عمدةالقاري: 248/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1658   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.