الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
45. باب فِي الرَّجُلِ يَأْخُذُ حَقَّهُ مِنْ تَحْتِ يَدِهِ
45. باب: کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟
Chapter: Regarding A Man Who Takes His Right From Something That Is Under His Control.
حدیث نمبر: 3532
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا هشام بن عروة، عن عروة، عن عائشة، ان هندا ام معاوية، جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" إن ابا سفيان، رجل شحيح، وإنه لا يعطيني ما يكفيني وبني، فهل علي جناح ان آخذ من ماله شيئا؟، قال: خذي ما يكفيك وبنيك بالمعروف".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ، جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ، رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا؟، قَالَ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَبَنِيكِ بِالْمَعْرُوفِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17261، 16904)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 95 (2211)، المظالم 18 (2460)، النفقات 5 (5359)، 9 (5364)، 14 (5370)، الأیمان 3 (6641)، الأحکام 14 (7161)، صحیح مسلم/الأقضیة 4 (1714)، سنن النسائی/آداب القضاة 30 (5422)، سنن ابن ماجہ/التجارات 65 (2293)، مسند احمد (6/39، 50، 602)، سنن الدارمی/النکاح 54 (2305) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Aishah: Hind, the mother of Muawiyah, came to the Messenger of Allah ﷺ and said: Abu Sufyan is a stingy person. He does not give me as much (money) as suffices me and my children. Is there any harm to me if I take something from his property ? He said: Take as much as suffices you and your children according to the custom.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3525


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2211) صحيح مسلم (1714)
   صحيح البخاري5370عائشة بنت عبد اللهخذي بالمعروف
   صحيح البخاري7180عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري2460عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم بالمعروف
   صحيح البخاري7161عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم من معروف
   صحيح البخاري5364عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري5359عائشة بنت عبد اللهلا إلا بالمعروف
   صحيح البخاري2211عائشة بنت عبد اللهخذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف
   سنن أبي داود3532عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وبنيك بالمعروف
   سنن أبي داود3533عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تنفقي بالمعروف
   سنن النسائى الصغرى5422عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   سنن ابن ماجه2293عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   بلوغ المرام975عائشة بنت عبد الله خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك
   مسندالحميدي244عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2293  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے۔

(2)
مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں، اس لیےجائز ہے۔

(3)
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
مناسب حد کا تعین حالات، ماحول، خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2293   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 975  
´نفقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہند بنت عتبہ، ابوسفیان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہے۔ مجھے وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو مگر یہ کہ میں پوشیدہ طور پر کچھ لے لوں تو ایسا کرنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 975»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه...، حديث:5364، ومسلم، الأقضية، باب قضية هند، حديث"1714.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند اگر استطاعت کے باوجود اخراجات پورے ادا نہ کرے تو بیوی اسے بتائے بغیر اتنا خرچہ اس کے مال میں سے لے سکتی ہے جس سے اس کی جائز ضروریات پوری ہو سکتی ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اپنا جائز حق جس طرح وصول ہو سکتا ہو‘ کیا جا سکتا ہے۔
اور ناانصافی کے ازالے کی غرض سے شکوہ کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔
2. بیوی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں اپنے شوہر کی شکایت لے جانے کی مجاز ہے۔
یہ شکایت بھی غیبت میں شمار نہیں‘ اگر یہ غیبت کی تعریف میں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہند کو منع فرما دیتے۔
وضاحت: «حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر ابوسفیان کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ان کا والد عتبہ‘ چچا شیبہ اور بھائی ولید غزوۂ بدر کے روز قتل کیے گئے تھے۔
یہ واقعہ ان کی طبیعت پر بڑا شاق گزرا‘ چنانچہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو انھوں نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا‘ پھر اسے باہر پھینک دیا۔
محرم ۱۴ ہجری میں وفات پائی۔
سن وفات کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیں۔
«حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکہ آرائی میں کفار کے علمبردار‘ قائد اور سپہ سالار ہوتے تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر اسلام اس وقت قبول کیا جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنی پناہ و حفاظت میں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ دخول مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ان کا اسلام بہت عمدہ اور خوب رہا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 975   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3532  
´کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3532]
فوائد ومسائل:

بیوی اور بچوں کا خرچ شوہر کے ذمے ہے۔
اور اس پر واجب ہے۔
کہ دستور کے مطابق مہیا کرے۔


مصلحت کی غرض سے زوجین یا احباب ایک دوسرے کے بعض عیب ذکر کریں تو جائز ہے۔


بعض اوقات قاضی اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر گواہ طلب کئے بغیر بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔


اگر کوئی شخص کسی کا حق ادا نہ کر رہا ہو تو جائز ہے۔
کہ اس کے امانتی مال میں سے اپنے حق کے برابر ل لے۔
(خطابی نیز دیکھئے حدیث 3534)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3532   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.