الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
99. بَابُ مَنْ يُصَلِّي الْفَجْرَ بِجَمْعٍ:
99. باب: فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا۔
(99) Chapter. At what time is the Fajr prayer to be offered at Jam (i.e., Al-Muzdalifa)?
حدیث نمبر: 1683
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: خرجنا مع عبد الله رضي الله عنه إلى مكة، ثم قدمنا جمعا، فصلى الصلاتين كل صلاة وحدها باذان وإقامة والعشاء بينهما، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، قائل يقول: طلع الفجر، وقائل يقول: لم يطلع الفجر، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن هاتين الصلاتين حولتا عن وقتهما في هذا المكان المغرب والعشاء، فلا يقدم الناس جمعا حتى يعتموا وصلاة الفجر هذه الساعة"، ثم وقف حتى اسفر، ثم قال: لو ان امير المؤمنين افاض الآن اصاب السنة، فما ادري اقوله كان اسرع ام دفع عثمان رضي الله عنه، فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يوم النحر.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مكة، ثُمَّ قَدِمْنَا جَمْعًا، فَصَلَّى الصَّلَاتَيْنِ كُلَّ صَلَاةٍ وَحْدَهَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ وَالْعَشَاءُ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، قَائِلٌ يَقُولُ: طَلَعَ الْفَجْرُ، وَقَائِلٌ يَقُولُ: لَمْ يَطْلُعِ الْفَجْرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ حُوِّلَتَا عَنْ وَقْتِهِمَا فِي هَذَا الْمَكَانِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، فَلَا يَقْدَمُ النَّاسُ جَمْعًا حَتَّى يُعْتِمُوا وَصَلَاةَ الْفَجْرِ هَذِهِ السَّاعَةَ"، ثُمَّ وَقَفَ حَتَّى أَسْفَرَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَفَاضَ الْآنَ أَصَابَ السُّنَّةَ، فَمَا أَدْرِي أَقَوْلُهُ كَانَ أَسْرَعَ أَمْ دَفْعُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی گئیں ہیں، یعنی مغرب اور عشاء، مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں کہ اندھیرا ہو جائے اور فجر کی نماز اس وقت۔ پھر عبداللہ اجالے تک وہیں مزدلفہ میں ٹھہرے رہے اور کہا کہ اگر امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت چلیں تو یہ سنت کے مطابق ہو گا۔ (حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ ان کی زبان سے پہلے نکلے یا عثمان رضی اللہ عنہ کی روانگی پہلے شروع ہوئی، آپ دسویں تاریخ تک جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Yazid: I went out with `Abdullah , to Mecca and when we proceeded to am' he offered the two prayers (the Maghrib and the `Isha') together, making the Adhan and Iqama separately for each prayer. He took his supper in between the two prayers. He offered the Fajr prayer as soon as the day dawned. Some people said, "The day had dawned (at the time of the prayer)," and others said, "The day had not dawned." `Abdullah then said, "Allah's Apostle said, 'These two prayers have been shifted from their stated times at this place only (at Al-Muzdalifa); first: The Maghrib and the `Isha'. So the people should not arrive at Al-Muzdalifa till the time of the `Isha' prayer has become due. The second prayer is the morning prayer which is offered at this hour.' " Then `Abdullah stayed there till it became a bit brighter. He then said, "If the chief of the believers hastened onwards to Mina just now, then he had indeed followed the Sunna." I do not know which proceeded the other, his (`Abdullah's) statement or the departure of `Uthman . `Abdullah was reciting Talbiya till he threw pebbles at the Jamrat-Al- `Aqaba on the Day of Nahr (slaughtering) (that is the 10th of Dhul-Hijja).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 743


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1683  
1683. حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ آیا۔ پھر ہم مزدلفہ آئے تو انھوں نے دو نمازیں ادا کیں۔ ہر نماز کے لیے الگ الگ اذان اور اقامت کہی اور دونوں کے درمیان کھانا کھایا۔ پھر جب صبح نمودار ہوئی تو نماز فجر اداکی۔ اس وقت اتنا اندھیرا تھا کہ کوئی کہتا فجر ہوگئی اور کوئی کہتا ابھی فجر نہیں ہوئی۔ فراغت کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ یہ دونوں نمازیں مغرب اور عشاء اس مقام (مزدلفہ) میں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں جب اندھیرا ہوجائے۔ اور نماز فجر اس وقت پڑھیں۔ پھر عبداللہ بن مسعود ؓ ٹھہرے رہے حتیٰ کہ روشنی ہوگئی۔ پھرکہنے لگے: اگر امیر المومنین (حضرت عثمان ؓ) اس وقت منیٰ کی طرف روانہ ہوتے تو سنت کے مطابق عمل کرتے۔ راوی کہتا ہے کہ مجھےیہ علم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابن مسعود ؓ کا یہ فرمان پہلے ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1683]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت عبدللہ بن مسعود ؓ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان ؓ مزدلفہ سے لوٹے، سنت یہی ہے کہ مزدلفہ سے فجر کی روشنی ہونے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
فجر کی نماز سے متعلق اس حدیث میں جو وارد ہے کہ وہ ایسے وقت میں پڑھی گئی کہ لوگوں کو فجر کے ہونے میں شبہ ہو رہا تھا، اس کی وضاحت مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے جو حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاءکو ملا کر ادا کیا پھر آپ ﷺ سو گئے ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ، بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ إلی آخر الحدیث پھر سو کر آپ ﷺ کھڑے ہوئے جب کہ فجر طلوع ہو گئی۔
آپ ﷺ نے صبح کھل جانے پر نماز فجر کو ادافرمایا اور اس کے لیے اذان اور اقامت ہوئی۔
معلوم ہوا کہ پچھلی حدیث میں راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز کو اندھیرے میں بہت اول وقت یعنی فجر ظاہر ہوتے ہی فوراً ادا فرما لیا، یوں آپ ﷺ ہمیشہ ہی نماز فجر غلس یعنی اندھیرے میں ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے مگر یہاں اور بھی اول وقت طلوع فجر کے فوراً بعد ہی آپ ﷺ نے نماز فجر کو ادا فرما لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1683   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1683  
1683. حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ آیا۔ پھر ہم مزدلفہ آئے تو انھوں نے دو نمازیں ادا کیں۔ ہر نماز کے لیے الگ الگ اذان اور اقامت کہی اور دونوں کے درمیان کھانا کھایا۔ پھر جب صبح نمودار ہوئی تو نماز فجر اداکی۔ اس وقت اتنا اندھیرا تھا کہ کوئی کہتا فجر ہوگئی اور کوئی کہتا ابھی فجر نہیں ہوئی۔ فراغت کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ یہ دونوں نمازیں مغرب اور عشاء اس مقام (مزدلفہ) میں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں جب اندھیرا ہوجائے۔ اور نماز فجر اس وقت پڑھیں۔ پھر عبداللہ بن مسعود ؓ ٹھہرے رہے حتیٰ کہ روشنی ہوگئی۔ پھرکہنے لگے: اگر امیر المومنین (حضرت عثمان ؓ) اس وقت منیٰ کی طرف روانہ ہوتے تو سنت کے مطابق عمل کرتے۔ راوی کہتا ہے کہ مجھےیہ علم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابن مسعود ؓ کا یہ فرمان پہلے ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1683]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی مختصر اور مفصل دو روایات پیش کی ہیں۔
ان سے مقصود دو مسئلے ثابت کرنے ہیں:
٭ دسویں ذوالحجہ کو صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنی چاہیے، البتہ جو کمزور اور ناتواں حضرات و خواتین ہوں انہیں اجازت ہے کہ وہ رات کے پچھلے حصے میں منیٰ آ جائیں اور نماز فجر منیٰ میں ادا کر کے کنکریاں وغیرہ مار لیں۔
٭ نماز فجر بروقت ہی ادا کریں، البتہ معمول کے وقت سے کچھ پہلے پڑھ لیں۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے صبح صادق سے پہلے پڑھ لیا جائے جیسا کہ بعض حضرات نے گمان کیا ہے بلکہ اسے طلوع فجر کے بعد ہی پڑھنا ہو گا جیسا کہ صحیح بخاری ہی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر طلوع فجر کے وقت پڑھی۔
(حدیث: 1683)
صحیح مسلم میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب و عشاء پڑھنے کے بعد سو گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی، پھر صبح کھلنے کے بعد نماز فجر ادا کی۔
ویسے بھی آپ کا معمول تھا کہ نماز فجر اندھیرے میں ادا کرتے تھے لیکن اس دن طلوع فجر کے فورا بعد ہی آپ نے نماز فجر ادا کر لی تاکہ وقوف مزدلفہ کے لیے کچھ وقت مل جائے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے ہیں حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بعینہ یہی الفاظ وقوف عرفہ سے لوٹتے وقت ادا کیے تھے، چنانچہ جب عرفہ میں وقوف کیا اور سورج غروب ہو گیا تو انہوں نے فرمایا:
اگر امیر المومنین اس وقت مزدلفہ لوٹیں تو سنت کے مطابق عمل کریں۔
راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ بات پہلے کہی یا حضرت عثمان ؓ نے مزدلفہ کی طرف کوچ پہلے کیا۔
(فتح الباري: 671/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1683   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.