الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
27. بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ وَلاَ يَمْسَحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ:
27. باب: دونوں پاؤں دھونا چاہیے اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔
(27) Chapter. Washing both feet, and it is not sufficient to pass wet hands over the feet.
حدیث نمبر: 163
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن عمرو، قال: تخلف النبي صلى الله عليه وسلم عنا في سفرة سافرناها، فادركنا وقد ارهقنا العصر، فجعلنا نتوضا ونمسح على ارجلنا، فنادى باعلى صوته:" ويل للاعقاب من النار مرتين او ثلاثا".حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنَّا فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الْعَصْرَ، فَجَعَلْنَا نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے، وہ ابوبشر سے، وہ یوسف بن ماہک سے، وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آ پہنچا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور (اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ويل للأعقاب من النار» ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: The Prophet remained behind us on a journey. He joined us while we were performing ablution for the `Asr prayer which was overdue and we were just passing wet hands over our feet (not washing them thoroughly) so he addressed us in a loud voice saying twice , "Save your heels from the fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 164

   صحيح البخاري96عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري60عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري163عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح مسلم570عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   صحيح مسلم572عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار
   سنن أبي داود97عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن النسائى الصغرى111عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن ابن ماجه451عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 163  
´دونوں پاؤں دھونا چاہیے اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنَّا فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الْعَصْرَ، فَجَعَلْنَا نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ` (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آ پہنچا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور (اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ويل للأعقاب من النار» ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ وَلاَ يَمْسَحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ:: 163]

تشریح:
اس میں روافض کا رد ہے جو قدموں پر بلا موزوں کے مسح کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب سے ثابت کیا ہے کہ جب موزے پہنے ہوئے نہ ہو تو قدموں کا دھونا فرض ہے جیسا کہ آیت وضو میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاؤں کو بھی دوسرے اعضاء کی طرح دھونا چاہئیے اور اس طرح پر کہ کہیں سے کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 163   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 60  
´علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنا`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 60]

تشریح:
بلند آواز سے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں «ليس بصخاب» آیا ہے کہ آپ شور و غل کرنے والے نہ تھے مگر یہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کر کے بتلا دیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرما دیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہو جایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 60   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 96  
´محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کر سکتا ہے`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 96]

تشریح:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے تو آپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے تو تیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہو جاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 97  
´وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہئیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 97]
فوائد و مسائل:
معلوم ہوا کہ وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہیے، ورنہ مذکورہ وعید ثابت اور لاگو ہو گی۔ ایڑیوں کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ آدمی جلدی میں ہو اور ان کا خیال نہ کرے تو یہ خشک رہ جاتی ہیں، خاص طور پر ٹخنوں کے پیچھے کی گہری جگہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 97   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 111  
´وضو میں دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا، تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں (خشک ہونے کی وجہ سے) چمک رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو میں ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی تباہی ہے، وضو کامل طریقہ سے کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 111]
111۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 182، و صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 274، و جامع الترمذي، الطهارة، حديث: 99]
«وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ……… الخ» بددعا بھی ہو سکتی ہے اور خبر بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 111   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:163  
163. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ نے ہم کو پا لیا جبکہ عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور جلدی جلدی پاؤں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر کہا: ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:163]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے۔
ان پر مسح کرنا نہیں دلیل میں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پاؤں دھونے کے بجائے جلدی جلدی ان پر مسح کرنے لگے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کا وظیفہ مسح ہوتا تو مسح کرتے وقت کسی کے نزدیک بھی استیعاب ضروری نہیں ہے، اس لیے اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وظیفہ تو ادا ہو چکا تھا لیکن چونکہ پاؤں کا وظیفہ دھونا ہے اور اس میں استیعاب (پورے پاؤں پر ہاتھ پھیرنا)
ضروری ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وعید شدید سنائی۔
اس سے معلوم ہوا کہ خالی پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ (تَمسَحُ)
کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے اور اس میں استیعاب ہے یعنی ان کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔

اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استنثار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔
جس طرح خالی پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہے۔

اس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا وظیفہ غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے۔
اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔
دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان، اوقات نماز، طریقہ نماز، زکاۃ، الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 163   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.