الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
The Book of Al-Umra
19. بَابُ السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ:
19. باب: سفر بھی گویا عذاب کا ایک حصہ ہے۔
(19) Chapter. Travelling is a kind of torture.
حدیث نمبر: 1804
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" السفر قطعة من العذاب يمنع احدكم طعامه وشرابه ونومه، فإذا قضى نهمته فليعجل إلى اهله".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهُ، فَإِذَا قَضَى نَهْمَتَهُ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز) سے روک دیتا ہے، اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو فوراً گھر واپس آ جائے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Traveling is a kind of torture as it prevents one from eating, drinking and sleeping properly. So, when one's needs are fulfilled, one should return quickly to one's family."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 27, Number 31

   صحيح البخاري5429عبد الرحمن بن صخرالسفر قطعة من العذاب
   صحيح البخاري3001عبد الرحمن بن صخرالسفر قطعة من العذاب
   صحيح البخاري1804عبد الرحمن بن صخرالسفر قطعة من العذاب
   صحيح مسلم4961عبد الرحمن بن صخرالسفر قطعة من العذاب
   سنن ابن ماجه2882عبد الرحمن بن صخرالسفر قطعة من العذاب
   المعجم الصغير للطبراني1181عبد الرحمن بن صخر السفر قطعة من العذاب يمنع أحدكم نومه وطعامه وشرابه ولذته ، فإذا فرغ أحدكم من حاجته فليعجل إلى أهله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 251  
´سفر میں روزہ رکھنے کا اختیار ہے`
«. . . 435- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: السفر قطعة من العذاب يمنع أحدكم نومه وطعامه وشرابه فإذا قضى أحدكم نهمته من وجهه فليعجل إلى أهله . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ آدمی کو اس کی نیند، کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے پس جو شخص (سفر سے) اپنا مقصد پورا کر لے تو اسے چاہئے کہ جلدی گھر واپس لوٹ آئے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 251]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1804، ومسلم 1927، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ عام طور پر سفر میں کئی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے اسے عذاب کا ٹکڑا قرار دیا گیا ہے۔
➋ تکلیفوں پر صبر کرنا اہلِ ایمان کا طرزِ عمل ہوتا ہے۔
➌ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ «سافروا تصحوا» سفر کرو تم صحیح ہو جاؤ گے۔ مثلاً دیکھئے: [التمهيد 22/37]
یہ تمام روایتیں ضعیف ومردود ہیں مثلاً ایک روایت میں ابوعلقمہ عبداللہ بن عیسیٰ الفروی المدنی الاصم سخت ضعیف ہے، دوسری میں محمد بن عبدالرحمٰن بن رداد المدینی ضعیف ہے، تیسری میں قاسم بن عبدالرحمٰن الانصاری سخت ضعیف ہے۔ ديكهئے [لسان الميزان 4/462] اور اس کی سند بھی ثابت نہیں ہے۔
➍ شرعی عذر اور مناسب وجوہات کے بغیر گھر سے باہر نہیں رہنا چاہئے۔
➎ نیند، خورد و نوش اور آرام و سکون اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں اور جسے یہ چیزیں میسر ہیں اس پر اللہ کی خاص رحمت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 435   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2882  
´حج کے لیے نکلنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تمہارے سونے، اور کھانے پینے (کی سہولتوں) میں رکاوٹ بنتا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کی ضرورت پوری کر لے، تو جلد سے جلد اپنے گھر لوٹ آئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2882]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سفر میں کئی طرح کی تکالیف اور مشقت ہوتی ہے جب کہ گھر کی راحت وآرام اللہ کا احسان ہے اس لیے کسی معقول سبب کے بغیر خواہ مخواہ ادھر ادھر گھومنا مناسب نہیں۔

(2)
محض تفریح کے طور پر طویل سفر کرنا ایک فضول مشغلہ ہے جو وقت اور دولت کا ضیاع ہے خاص طور پر غیر مسلم ممالک میں جہاں جاہلی تہذیب تمام قباحتوں کے ساتھ پوری قوت سے اثر انداز ہوتی ہے۔
بلاضرورت وہاں کا سفر کرکے اپنے ایمان اور عفت کو خطرے میں ڈالنا محض حماقت ہے۔

(3)
شرعی طور پر جائز مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہی نہیں مستحسن بھی ہے بلکہ بعض اوقات فرض بھی ہوجاتا ہے مثلاً فرض حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے یا ایسے علم کے حصول کے لیے جو وطن میں دستیاب نہیں۔
اس کے علاوہ کسی بھی جائز مقصد کے لیے سفر کرنا درست ہے مثلاً:
مسجد حرام، مسجد نبوی یا مسجد اقصی کی زیارت کے لیے اسی طرح کسی نیک آدمی یا رشتہ دار وں اور دوستوں سے ملاقات کے لیے اور تجارت وملازمت وغیرہ کے لیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2882   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1804  
1804. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1804]
حدیث حاشیہ:
یہ اس زمانے میں فرمایا گیا جب گھر سے باہر نکل کر قدم قدم پر بے حد تکالیف اور خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔
آج کل سفر میں بہت آسانیاں مہیا ہو گئی ہیں مگر پھر بھی رسول برحق کا فرمان اپنی جگہ ہے ہوائی جہاز موثر جس میں بھی سفر ہو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت سے ناموافق حالات سامنے آتے ہیں جن کو دیکھ کر بےساختہ منہ سے نکل پڑتا ہے سفر بالواقع عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔
ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ سفر عذاب کا ٹکڑا کیوں ہے فوراً جواب دیا لأن فیه فراق الأحباب اس لیے کہ سفر میں احباب سے جدائی ہو جاتی ہے اور یہ بھی ایک روحانی عذاب ہے۔
امام بخاریؒ کا منشائے باب یہ ہے کہ حاجی کے بعد جلد ہی وطن کو واپس ہونا چاہیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1804   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1804  
1804. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1804]
حدیث حاشیہ:
شارح بخاری ابن منیر ؒ لکھتے ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ رہنا مجاہدے سے افضل ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
ابن منیر کی یہ بات محل نظر ہے۔
ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو حج کے آخری باب میں لا کر ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جس کے الفاظ یہ ہیں:
(أذا قضی أحدكم حجه فليعجل الرحلة إلی أهله، فإنه أعظم لأجره)
جب تم میں سے کوئی اپنا حج مکمل کرے تو اسے اپنے گھر واپس آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
ایسا کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 259/5، والصحیحة للألباني، حدیث: 1379)
اہل خانہ سے زیادہ دیر تک غیر حاضر رہنا اچھا نہیں۔
اگرچہ سفر وسیلۂ ظفر کا محاورہ بھی مشہور ہے، تاہم ضرورت پوری ہونے کے بعد جلدی گھر واپس آنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ گھر میں آرام اور سکون میسر ہوتا ہے جس سے دین و دنیا کے معاملات سر انجام دینے میں مدد ملتی ہے، نمازیں اور جمعہ وغیرہ باقاعدہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1804   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.