الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
7. بَابُ : اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ
7. باب: بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔
Chapter: Avoiding Bid'ah (innovation) and dispute
حدیث نمبر: 45
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا سويد بن سعيد ، واحمد بن ثابت الجحدري ، قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب، احمرت عيناه، وعلا صوته، واشتد غضبه، كانه منذر جيش، يقول:" صبحكم مساكم"، ويقول:" بعثت انا والساعة كهاتين، ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى"، ثم يقول:" اما بعد فإن خير الامور كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد، وشر الامور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة"، وكان يقول:" من ترك مالا فلاهله، ومن ترك دينا، او ضياعا فعلي وإلي".
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ، احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ، يَقُولُ:" صَبَّحَكُمْ مَسَّاكُمْ"، وَيَقُولُ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرِنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى"، ثُمَّ يَقُولُ:" أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْأُمُورِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ"، وَكَانَ يَقُولُ:" مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا، أَوْ ضَيَاعًا فَعَلَيَّ وَإِلَيَّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہو جاتا، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میں اور قیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں، اور (سمجھانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی اور بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے: حمد و صلاۃ کے بعد! جان لو کہ سارے امور میں سے بہتر اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور راستوں میں سے سب سے بہتر محمد کا راستہ (سنت) ہے، اور سب سے بری چیز دین میں نئی چیزیں (بدعات) ہیں ۱؎، اور ہر بدعت (نئی چیز) گمراہی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جو مرنے والا مال و اسباب چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا اہل و عیال چھوڑے تو قرض کی ادائیگی، اور بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجمعة 13 (867)، سنن النسائی/العیدین 21 (1579)، (تحفة الأشراف: 2599)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الخراج 15 (2954)، مسند احمد (3/311، 319، 338، 371، سنن الدارمی/المقدمة 23 (212)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2416) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «محدثات» نئی چیزوں سے مراد ہر وہ چیز جو نبی ﷺ کے بعد دین میں ایجاد کر لی گئی ہو، اور کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔

It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said: "When the Messenger of Allah (ﷺ) delivered a sermon, his eyes would turn red, he would raise his voice and he would speak with intensity, as if he were warning of an (enemy) army, saying, 'They will surely attack you in the morning, or they will surely attack you in the evening!' He would say: 'I and the Hour have been sent like these two,' and he would hold his index and middle finger. Then he would say: 'The best of guidance is the guidance of Muhammad. The most evil matters are those that are newly-invented, and every innovation (Bid'ah) is a going astray.' And he used to say: 'Whoever dies and leaves behind some wealth, it is for his family, and whoever leaves behind a debt or dependent children, then they are both my responsibility.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم2005جابر بن عبد اللهبعثت أنا والساعة كهاتين ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى
   سنن ابن ماجه45جابر بن عبد اللهبعثت أنا والساعة كهاتين ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى
   مشكوة المصابيح141جابر بن عبد اللهاما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد وشر الامور محدثاتها وكل بدعة ضلالة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 141  
´بدعت گمراہی ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .»
. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اما بعد» (یعنی خطبہ میں فرمایا کہ حمد وصلوۃ کے بعد تم لوگ اس بات کو جان لو) کہ سب باتوں سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب راستوں سے اچھا راستہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا راستہ ہے اور سب کاموں سے زیادہ برا کام وہ ہے جو دین میں نیا کام نکالا گیا ہو، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 141]

فقہ الحدیث
➊ تقریر سے پہلے (اور مسنون خطبے کے بعد) «اما بعد» کہنا سنت ہے۔
➋ حدیث رسول کی طرح کتاب اللہ (قرآن) کو حدیث کہنا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: سورۃ الزمر آیت: 23
➌ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر قسم کی بدعت گمراہی، باطل اور مردود ہے۔
➍ جو عمل سنت سے ثابت ہو اور عوام میں جاری نہ ہو، پھر اس ثابت شدہ عمل کو دوبارہ جاری کر دیا جائے تو لغوی اعتبار سے اسے بدعت کہا جا سکتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول «نعم البدعة هذه» یہ اچھی بدعت ہے۔ [صحيح بخاري: 2010] کا یہی مطلب ہے۔
لیکن جس عمل کا کتاب و سنت اور ادلۂ شرعیہ میں کوئی ثبوت ہی نہ ہو تو اسے بدعت حسنہ قرار دینا غلط ہے۔ شریعت میں بدعت حسنہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ (بعض) لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں۔ [السنة للمروزي: 82 وسنده صحيح]
➎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«من وقر صاحب بدعة فقد أعان عليٰ هدم الإسلام»
جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی۔ [الشريعة للآجري ص962 ح 2040 وسنده صحيح]
ابوالفضل عباس بن یوسف الشکلی مقبول الروایہ راوی ہے۔ دیکھیے: [تاريخ الاسلام فى للذهبي 479/23] اور [الوافي بالوفيات 373/16]
➏ مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو ایک بدعتی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
اس کے پاس ہرگز نہ بیٹھو۔ [سنن الدارمي: 398 و سنده صحيح]
➐ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ [سنن الدارمي: 399 وسنده حسن، وقال الترمذي 2152: حسن صحیح غريب]
➑ ایک بدعتی نے امام ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے جواب دیا: آدھی بات بھی نہیں، اور انہوں نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ [سنن الدارمي: 404 وسنده صحيح، الشريعة الآجري ص963 ح2046 وسنده صحيح]
➒ مشہور ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ صرف اہل سنت کو حدیث پڑھاتے تھے، فرماتے ہیں:
«نحدث أهل السنة»
ہم (صرف) اہل سنت کو حدیثیں سناتے ہیں۔ [تاريخ ابي زرعة الدمشقي: 1208، وسنده صحيح]
➓ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں تہتر [73] فرقے ہو جائیں گے جن میں صرف ایک جنتی ہے اور باقی سارے فرقے جہنمی ہیں۔ اسے درج ذیل صحابہ کرام نے روایت کیا ہے:
① عوف بن مالک رضی اللہ عنہ [سنن ابن ماجه: 3992 وسنده حسن]
② معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 4597 وسنده حسن]
③ ابوامامہ رضی اللہ عنہ [المعجم الكبير للطبراني 8؍321 ح8035 وسنده حسن، السنن الكبريٰ للبيهقي 8؍188، وسنده حسن]
اس آخری روایت میں فرقہ ناجیہ السواد الاعظم کو قرار دیا گیا ہے اور حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں «الجماعة» کا لفظ ہے، ان سب سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعت حقہ ہے اور یہی السواد الاعظم ہے۔ نيز ديكهئے: [كتاب الشريعة الآجري ص14، 15، دوسرا نسخه ص17]
↰ خیرالقرون گزر جانے کے بعد شرالقرون میں بعض مبتدعین کا اپنے آپ کو سواد اعظم قرار دینا اسی طرح غلط ہے جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان بہت سے گمراہوں کے اکثریتی علاقے میں رہ رہا ہو اور اکثریتی لوگ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں۔
↰ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وتفترق أمتي عليٰ ثلاث وسبعين فرقة»
اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ [سنن الترمذي: 2640 وقال: حديث حسن صحيح وسنده حسن وصححه ابن حبان: 1834، والحاكم 1؍128، عليٰ شرط مسلم ووافقه الذهبي!]
↰ یہ تینوں یا چاروں روایتیں اپنے مفہوم کے ساتھ صحیح لغیرہ ہیں بلکہ بعض علماء نے تہتر فرقوں والی حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني ص57 ح18]
↰ فرقوں والی بعض روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360 ھ) فرماتے ہیں:
«رحم الله عبدا حذر هٰذه الفرق وجانب البدع واتبع ولم يبتدع ولزم الأثر وطلب الطريق المستقيم واستعان بمولاه الكريم»
اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ان فرقوں سے ڈرایا اور بدعات سے دوری اختیار کی، اس نے اتباع کی اور بدعات کی پیروی نہیں کی، اس نے آثار کو لازم پکڑا اور صراط مستقیم طلب کی اور اپنے مولیٰ کریم (اللہ) سے مدد مانگی۔ [الشريعة ص18، دوسرا نسخه ص20 قبل ح30]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث45  
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہو جاتا، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میں اور قیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں، اور (سمجھانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی اور بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے: حمد و صلاۃ کے بعد! جان لو کہ سارے امور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 45]
اردو حاشہ:
(1)
خطبے کا اصل مقصد غلطیوں پر تنبیہ کرنا اور ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے، لہذا خطبہ میں حالات کے مطابق عوام کی غلطیوں کی نشاندہی اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرنا ضروری ہے۔

(2)
موضوع کی مناسبت سے خطبے میں جذباتی رنگ اختیار کرنا بھی درست ہے۔

(3)
صراط مستقیم کا خلاصہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔

(4)
خطبے کے دوران میں اگلی سے اشارہ مسنون ہے اور کوئی بات سمجھانے کے لیے مناسب اشارات سے مدد لینا درست ہے۔

(5)
قرب قیامت کی صراحت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔
جس طرح درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہوتی، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت سے پہلے کسی کو نبی بنا کر مبعوث نہیں کیا جائے گا، البتہ حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے نزول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے منافی نہیں، کیونکہ انہیں نبوت پہلے مل چکی تھی اور اب وہ شریعت محمدی کے مطابق عمل کریں گے۔

(6)
قیامت قریب ہونے میں امت کے افراد کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ دنیا میں منہمک ہو کر قیامت کو فراموش نہ کر دیں بلکہ زیادہ توجہ سے آخرت کے لیے تیاری کریں۔

(7)
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا درست نہیں بلکہ ہر بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(8)
فوت ہونے والے کا ترکہ قرآن و حدیث میں بیان کیے ہوئے اصولوں کے مطابق وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے، حکام اس میں تبدیلی کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ ان کا فرض ہے کہ ہر وارث کے لیے اس کے مقررہ حصے کا حصول یقینی بنائیں۔

(9)
لاوارث اور ضرروت مند افراد کی کفالت کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ قرض ہو لیکن وہ اتنا مال نہ چھوڑ گیا ہو جس سے قرض ادا ہو سکے تو اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ بیت المال سے اس کا قرض ادا کرے اور اس کے پسماندگان کے جائز اخراجات پورے کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 45   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.