الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
35. باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 196
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام يخفض القسط ويرفعه، حجابه النور لو كشفها لاحرقت سبحات وجهه كل شيء ادركه بصره"، ثم قرا ابو عبيدة: ان بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين سورة النمل آية 8.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ"، ثُمَّ قَرَأَ أَبُو عُبَيْدَةَ: أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة النمل آية 8.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر جائے، پھر ابوعبیدہ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «أن بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين» کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (سورة النمل: 8)۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Musa said: "The Messenger of Allah said: 'Allah does not sleep, and it is not befitting that He should sleep. He lowers the Scales and raises them. His Veil is Light, and if He were to remove it, the glory of his Face would burn everything of His creation, as far as His gaze reaches.' " Then Abu 'Ubaidah recited the verse: 'Blessed is whosoever is in the fire, (i.e. the light of Allah) and whosoever is round about it! And Glorified is Allah, the Lord of all that exists."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   صحيح مسلم447عبد الله بن قيسالله لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يرفع القسط ويخفضه يرفع إليه عمل النهار بالليل وعمل الليل بالنهار
   صحيح مسلم445عبد الله بن قيسالله لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور
   سنن ابن ماجه196عبد الله بن قيسالله لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه حجابه النور لو كشفها لأحرقت سبحات وجهه كل شيء أدركه بصره
   سنن ابن ماجه195عبد الله بن قيسالله لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه
   مشكوة المصابيح91عبد الله بن قيسإن الله عز وجل لا ينام ولا ينبغي له ان ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 91  
´کچھ صفات الہی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن أبي مُوسَى قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عز وَجل لَا يَنَامُ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْل حجابه النُّور» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں وعظ فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے اس وقت میں اس وعظ میں یہ پانچ باتیں خصوصیت سے فرمائیں: اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے، اور نہ اس کے لیے سونا مناسب ہے، اور وہ روزی کی ترازو کو کبھی نیچا کرتا ہے اور کبھی اونچا کرتا ہے، اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے چڑھتا ہے اور دن کا کام رات کے کام سے پہلے اس کے پاس پہنچتا ہے، اور اس کا پردہ نور ہے اگر وہ اس پردہ کو ہٹا دے تو اس ذات پاک کا نور جہاں تک اس کی مخلوقات کی نگاہ پہنچے سب کو جلا دے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 91]

تخریج:
[صحيح مسلم 445]

فقہ الحدیث:
➊ اللہ کی بصر ساری کائنات کو محیط ہے۔ اس کی بصر، علم اور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔
➋ اللہ جسے چاہتا ہے، نیکی کی توفیق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گمراہیوں میں بھٹکا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ سب اسی کی تقدیر کے مطابق ہو رہا ہے۔
➌ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے، لیکن دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان اپنے رب کا دیدار کریں گے . نیز ان لوگوں کے دعوے کی بھی نفی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں بیداری کی حالت میں اللہ کو دیکھا ہے .
➍ میزان حق ہے اور بندوں کے اعمال تولے جائیں گے۔
➎ نیند اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں بلکہ اسے تو اونگھ بھی نہیں آتی۔ «سبحان الله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 91   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث196  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر جائے، پھر ابوعبیدہ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «أن بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين» کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (سورة النمل: 8)۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 196]
اردو حاشہ:
(1)
یہ دنیا کی آگ نہ تھی بلکہ اللہ کا نور تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حِجَابُهُ النُّوْر کہ اس کا پردہ نور یا آگ ہے۔

(2)
اور جو اس کے آس پاس ہے۔
یعنی حضرت موسی علیہ السلام اور فرشتے۔ (تفسیر ابن جریر: 11؍165)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث195  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو اوپر نیچے کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس تک پہنچا دیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر اس کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیات ان ساری مخلوقات کو جہاں تک اس کی نظر پہنچے جلا دیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 195]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کی بعض صفات بیان فرمائی ہیں، ان پر ایمان رکھنا ضرروی ہے۔

(2)
عقیدے کے مسائل بہت اہم ہیں، لہٰذا انہیں وضاحت سے بیان کرنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اہمیت کے پیش نظر خطبے میں انہیں بیان فرمایا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سنیں اور سمجھ سکیں۔

(3)
نیند اور آرام مخلوقات کی ضرورت ہے تاکہ کام کرنے سے جوتھکاوٹ اور کمزوری پیدا ہوتی ہے، اس کا مداوا ہو جائے، اللہ تعالیٰ حَیّ و قیوم ہے، جو تمام مخلوقات کو قائم رکھنے والا ہے، اس لیے نہ تو اللہ تعالٰی کو تکھاوٹ لاحق ہوتی ہے، نہ آرام اور نیند کی ضرورت پیش آتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَلَقَد خَلَقنَا السَّمـوتِ وَالأَر‌ضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ﴾  (ق: 38)
 یقینا ہم نے آسمان و زمین، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کو (صرف)
چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں۔
اس طرح قرآن مجید نے بائبل کی غلطی کی اصلاح کر دی، بائبل میں عہد قدیم کی کتاب خروج، باب: 20، فقرہ: 11 کے الفاظ یہ ہیں:
کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے، وہ سب بنایا، اور ساتوین دن آرام کیا۔
اس لیے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔

(4)
میزان (ترازو)
کو جھکانے اور بلند کرنے کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اپنی حکمت کے مطابق کسی کو روزی کم دیتا ہے، کسی کو زیادہ، ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اعمال اس کی طرف بلند ہوتے ہیں، اور رزق اس کے پاس سے نازل ہوتا ہے، جس طرح تولتے وقت ترازو کے پلڑے اوپر نیچے ہوتے ہیں۔

(5)
اعمال اللہ ہی کے سامنے پیش ہوتے ہیں، کسی اور کے سامنے نہیں، لہذا عمل کرتے وقت اس کی رضا پیش نظر رہنی چاہیے۔

(6)
اعمال کی یہ پیشی مختلف اعتبارات سے الگ الگ مدت کے بعد ہوتی ہے، جیسے اس حدیث میں ہے کہ چوبیس گھنٹے میں دو بار عمل پیش ہوتےہیں، دوسری حدیث میں ہے کہ سوموار اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ (صحيح مسلم، البر و الصلة والادب، باب النهي عن الشحناء والتهاجر، حديث: 2565)
والله أعلم.
(7)
بندہ اس فانی جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زیارت نہیں کر سکتا۔
نور کا پردہ اس کے اور مخلوق کے درمیان حائل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے ایک نور دیکھا ہے۔ (صحيح مسلم، الايمان، باب في قوله عليه السلام:
نور أني أراه، وفي قوله:
رأيت نورا، حديث: 178)

یعنی صرف نور کا پردہ دیکھا ہے، ذات اقدس کی زیارت نہیں ہوئی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہو گی جیسے گزشتہ احادیث میں بیان ہوا۔

(8)
اس فانی کائنات کی کوئی چیز اللہ کی تجلی برداشت نہیں کر سکتی۔
جب اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر تجلی فرمائی، تو پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کر سکا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿فَلَمّا تَجَلّى رَ‌بُّهُ لِلجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا﴾  (الاعراف: 143)
 جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس (تجلی)
نے اس کے پرخچے اڑا دیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 195   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.