الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
47. بَابُ : مَا يَجِبُ عَلَى الإِمَامِ
47. باب: امام کی ذمہ داری کیا ہے؟
Chapter: What is incumbent upon the Imam
حدیث نمبر: 981
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سعيد بن سليمان ، حدثنا عبد الحميد بن سليمان اخو فليح، حدثنا ابو حازم ، قال: كان سهل بن سعد الساعدي يقدم فتيان قومه يصلون بهم، فقيل له: تفعل ولك من القدم ما لك، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الإمام ضامن، فإن احسن فله ولهم، وإن اساء، يعني: فعليه، ولا عليهم".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ أَخُو فُلَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ يُقَدِّمُ فِتْيَانَ قَوْمِهِ يُصَلُّونَ بِهِمْ، فَقِيلَ لَهُ: تَفْعَلُ وَلَكَ مِنَ الْقِدَمِ مَا لَكَ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْإِمَامُ ضَامِنٌ، فَإِنْ أَحْسَنَ فَلَهُ وَلَهُمْ، وَإِنْ أَسَاءَ، يَعْنِي: فَعَلَيْهِ، وَلَا عَلَيْهِمْ".
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے، کسی نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ جوانوں کو نماز کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، حالانکہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کے لیے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4700، ومصباح الزجاجة: 354) (صحیح)» ‏‏‏‏ (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1767)

وضاحت:
۱؎: امام ضامن ہے کا مطلب یہ کہ اگر وہ اچھی طرح سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا اجر و ثواب اس کو اور مقتدیوں دونوں کو ملے گا، اور اگر خراب طریقے سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا وبال اسی پر ہو گا، نہ کہ مقتدیوں پر۔

Abu Hazim said: “Sahl bin Sa’d As-Sa’idi used to give preference to the young to lead his people in prayer. It was said to him: “Do you do that, when you have such seniority (in Islam)?” He said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘The Imam is responsible. If he does well, then he will have the reward and so will they, but if he does badly, then that will be counted against him but not against them.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف۔عبدالحميد (بن سليمان) اتفقوا علي تضعيفه“ وھو: ضعيف
ولبعض الحديث شواھد
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 413
   سنن ابن ماجه981سهل بن سعدالإمام ضامن فإن أحسن فله ولهم إن أساء فعليه ولا عليهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث981  
´امام کی ذمہ داری کیا ہے؟`
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے، کسی نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ جوانوں کو نماز کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، حالانکہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کے لیے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 981]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امامت ایک بھاری ذمہ داری ہے۔
امام کو اس کا احساس کرنا چاہیے۔

(2)
تربیت کے لئے نوجوانوں کوامام بنایا جاسکتا ہے۔

(3)
افضل فرد کی موجودگی میں غیر افضل کی اقتداء میں نماز درست ہے۔

(4)
اگر ایک شخص ذمے داری کا اہل ہونے کے باجود تواضعاً وہ ذمے داری نہ اٹھائے۔
جب کہ اس کام کے اہل دوسرے افراد موجود ہوں تو جائز ہے۔

(5)
امام کی غلطی کی ذمہ داری مقتدیوں پر نہیں۔
تاہم اگر وہ اہلیت رکھنے والے کو چھوڑ کر ایسے شخص کو امام بنایئں گے۔
جو اس منصب کا اہل نہیں تو نا اہل امام کے تعین کی ذمہ دااری ان پر ہوگی۔

(6)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے لکھا ہے۔
لیکن دیگر شواہد کی بنا پر متناً و معناً صحیح ہے۔
غالباً اسی بنا پر شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور دکتور بشارعواد نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم: 1767 وسنن ابن ماجه بتحقیق دکتور بشارعواد، رقم: 981)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 981   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.