الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
53. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
53. باب: میت پر رونے کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning weeping for the deceased
حدیث نمبر: 1588
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان ، عن اسامة بن زيد ، قال: كان ابن لبعض بنات رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي، فارسلت إليه ان ياتيها، فارسل إليها، ان لله ما اخذ وله ما اعطى، وكل شيء عنده إلى اجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب، فارسلت إليه فاقسمت عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وقمت معه، ومعه معاذ بن جبل، وابي بن كعب، وعبادة بن الصامت، فلما دخلنا ناولوا الصبي رسول الله صلى الله عليه وسلم وروحه تقلقل في صدره، قال: حسبته، قال: كانها شنة، قال: فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عبادة بن الصامت: ما هذا يا رسول الله؟، قال:" الرحمة التي جعلها الله في بني آدم، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنٌ لِبَعْضِ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَهَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، أَنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ فَأَقْسَمَتْ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْتُ مَعَهُ، وَمَعَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا نَاوَلُوا الصَّبِيَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوحُهُ تَقَلْقَلُ فِي صَدْرِهِ، قَالَ: حَسِبْتُهُ، قَالَ: كَأَنَّهَا شَنَّةٌ، قَالَ: فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" الرَّحْمَةُ الَّتِي جَعَلَهَا اللَّهُ فِي بَنِي آدَمَ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا ایک لڑکا مرنے کے قریب تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب میں کہلا بھیجا: جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی تھے، جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو لوگ بچے کو لے آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، بچے کی جان اس کے سینے میں اتھل پتھل ہو رہی تھی، (راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں یہ بھی کہا:) گویا وہ پرانی مشک ہے (اور اس میں پانی ہل رہا ہے): یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم کرتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 32 (1284)، المرضی 9 (5655)، القدر 4 (6602)، الأیمان والنذور 9 (6655)، التوحید 2 (7377)، 25 (7448)، صحیح مسلم/الجنائز 6 (923)، سنن ابی داود/الجنائز 28 (3125)، سنن النسائی/الجنائز 22 (1869)، (تحفة الأشراف: 98)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/204، 206، 207) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ رونا اور رنج کرنا خلاف شرع نہیں ہے بلکہ یہ دل کے نرم اور مزاج کے معتدل ہونے کی نشانی ہے، اور جس کسی کو ایسے موقعوں پر رنج بھی نہ ہو اس کا دل اعتدال سے باہر ہے اور وہ سخت دل ہے، اور یہ کچھ تعریف کی بات نہیں ہے کہ فلاں بزرگ اپنے بیٹے کے مرنے سے ہنسنے لگے، واضح رہے کہ عمدہ اور افضل نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے۔

Usamah bin Zaid said: “The son of one of the daughters of the Messenger of Allah (ﷺ) was dying. She sent for him, asking him to come to her, and he sent word to her, saying: ‘To Allah belongs what He has taken and to Him belongs what He has given. Everything has an appointed time with Him, so be patient and seek reward.’ But she sent for him again, adjuring him to come. So the Messenger of Allah (ﷺ) got up, and I got up with him, as did Mu’adh bin Jabal, Ubayy bin Ka’b and ‘Ubadah bin Samit. When we entered they handed the child to the Messenger of Allah (ﷺ), and his soul was rattling in his chest.” I think he was that it was like a water skin. “The Messenger of Allah (ﷺ) wept, and ‘Ubadah bin Samit said to him: ‘What is this, O Messenger of Allah?’ He said: ‘It is compassion which Allah has created in the son of Adam. Allah only shows mercy to those of His slaves who are compassionate.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري7448أسامة بن زيدإنما يرحم الله من عباده الرحماء
   صحيح البخاري1284أسامة بن زيديرحم الله من عباده الرحماء
   صحيح مسلم2135أسامة بن زيديرحم الله من عباده الرحماء
   سنن أبي داود3125أسامة بن زيدإنما يرحم الله من عباده الرحماء
   سنن ابن ماجه1588أسامة بن زيدالرحمة التي جعلها الله في بني آدم وإنما يرحم الله
   المعجم الصغير للطبراني1054أسامة بن زيدمن لا يرحم لا يرحم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1588  
´میت پر رونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا ایک لڑکا مرنے کے قریب تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب میں کہلا بھیجا: جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1588]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مصیبت کے وقت صبر اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔

(2)
انسان کو مصیبت کے وقت یہ سوچنا چاہیے۔
کہ جو کچھ اللہ نے ہم سے لیا ہے۔
وہ ہمارا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا تھا لہٰذا ہم نے اللہ کی امانت واپس کی ہے۔

(3)
یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ اپنی امانت ایک مدت تک ہمارے پاس رہنے دیتا ہے۔
اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔
اور جب وہ اپنی امانت واپس لیتا ہے۔
تو پھر صبر کرنے پر بھی ہمیں اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔
یہ بھی اس کا ایک احسان ہے۔

(4)
دل کا غم اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں۔

(5)
کسی کو قسم دے کر کوئی مطالبہ کرنا جائز ہے۔

(6)
جس کام کے لئے قسم دی جائے اگر وہ شرعا ممنوع نہ ہو تو اسے پورا کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔

(7)
غم کا موقع ہو یا خوشی کا اگر مسئلہ پوچھا جائے تو وضاحت کردینی چاہیے۔

(8)
اپنى یا کسی کی مصیبت پر غمگین ہونا نرم دلی کی علامت ہے۔
جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

(9)
اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت کرنے سے بندے کواللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔

(10)
وفات کے وقت تمام رشتے داروں کا حاضر ہونا ضروری نہیں تاہم گھر والوں کی یہ خواہش جائز ہے کہ ایسے وقت میں نیک لوگ قریب ہوں تاکہ ان کی دعا اور برکت سے جان کنی کا مرحلہ آسانی سے طے ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1588   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3125  
´میت پر رونا۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔‏‏‏‏ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3125]
فوائد ومسائل:

میت پر فرط غم سے آنکھوں سے آنسووں کا نکل آنا۔
ایک فطری امر ہے۔
اس لئے یہ کوئی معیوب بات نہیں۔
بلکہ یہ دل کی نرمی اور رحم دلی کی علامت ہے۔


جس شخص کا دل سخت ہو۔
ایسے موقعوں پر فطری طور پر جو غم ہوتا ہے۔
اس کا جائز بھی جائز طور پر اظہار نہ ہو تو یہ سنگ دلی ہے۔
جو ممدوح نہیں ہے۔
یہ کیفیت قابل علاج ہے۔
اور اس کا علاج ہے موت کو کثرت سے یاد کرنا۔
قبرستان کی زیارت اور یتیم کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا۔
ان اعمال کو بجالانے سے دل کی سختی نرمی سے بدل سکتی ہے۔


کہیں قریب میں بھی کوئی پیغام لینا دینا ہو تو حسن ادب یہ ہے کہ پہلے سلام کہلایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3125   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.