الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
68. بَابُ صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ:
68. باب: ایام تشریق کے روزے رکھنا۔
(68) Chapter. Observing Saum (fast) on Tashriq days (11th, 12th and 13th of Dhul-Hijjah).
حدیث نمبر: 1998
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، سمعت عبد الله بن عيسى بن ابي ليلى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، وعن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنه، قالا:" لم يرخص في ايام التشريق ان يصمن، إلا لمن لم يجد الهدي".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عِيسى بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَا:" لَمْ يُرَخَّصْ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَنْ يُصَمْنَ، إِلَّا لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْهَدْيَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عیسیٰ سے سنا، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (نیز زہری نے اس حدیث کو) سالم سے بھی سنا، اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا (عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم) دونوں نے بیان کیا کہ کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔

Narrated `Aisha and Ibn `Umar: Nobody was allowed to fast on the days of Tashriq except those who could not afford the Hadi (Sacrifice).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 216


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1998  
1998. حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر اس شخص کو جسے(ایام حج میں) قربانی کا جانور نہ مل سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1998]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أیام التشریق أي الأیام التي بعد یوم النحر و قد اختلف في کونها یومین أو ثلاثة و سمیت أیام التشریق لأن لحوم الأضاحي تشرق فیها أي تنشر في الشمس الخ یعنی ایام تشریق یوم النحر دس ذی الحجہ کے بعد والے دنوں کو کہتے ہیں جو دو ہیں یا تین اس بارے میں اختلاف ہے (مگر تین ہونے کو ترجیح حاصل ہے)
اور ان کا نام ایام تشریق اس لیے رکھا گیا کہ ان میں قربانیوں کا گوشت سکھانے کے لیے دھوپ میں پھیلا دیا جاتا تھا۔
والراجع عند البخاري جوازہ للمتمتع فإنه ذکر في الباب حدیث عائشة و ابن عمر في جواز ذلك و لم یورد غیرہ یعنی امام بخاری ؒ کے نزدیک حج تمتع والے کے لیے (جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو)
ان ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے، آپ نے باب میں حضرت عائشہ ؓ اور ابن عمر ؓ کی احادیث ذکر کی ہیں اور کوئی ان کے غیر حدیث نہیں لائے۔
جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ غیر متمتع کے حق میں قرار دی جاسکتی ہیں۔
اور جواز والی احادیث متمتع کے حق میں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
اس طرح ہر دو احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ کا فیصلہ یہ ہے:
یترجح القول بالجواز و إلی هذا جنح البخاري۔
(فتح)
یعنی حضرت امام بخاری ؒ جواز کے قائل ہیں اور اسی قوال کو ترجیح حاصل ہے۔
إبراهیم بن سعد عن ابن شهاب کے اثر کو امام شافعی ؒ نے وصل کیا قال أخبرني إبراهیم بن سعد عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة في المتمتع إذا لم یجد هدیاولم یصم قبل عرفة فلیصم أیام منی۔
یعنی حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ متمتع ایام تشریق میں روزہ رکھے جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو۔
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن ؒ فرماتے ہیں:
و حمل المطلق علی المقید واجب و کذا بناء العام علی الخاص قال الشوکاني و هذا أقوی المذاهب و أما القائل بالجواز مطلقاً فأحادیث جمیعها ترد علیه۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے اور اسی طرح عام کو خاص پر بنا کرنا۔
امام شوکانی فرماتے ہیں اور یہ قوی تر مذہب ہے اور جو لوگ مطلق جواز کے قائل ہیں پس جملہ احادیث ان کی تردید کرتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1998   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1998  
1998. حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر اس شخص کو جسے(ایام حج میں) قربانی کا جانور نہ مل سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1998]
حدیث حاشیہ:
(1)
حج تمتع کرنے والے کو اگر قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو ایام تشریق میں روزے رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے حضرات کو ان دنوں روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں، حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
(مسندأحمد: 75/5) (2)
حضرت عائشہ ؓاور حضرت ابن عمر ؓ نے درج ذیل آیت سے استنباط کیا ہے:
﴿فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ﴾ پس جسے قربانی کا جانور میسر نہ ہو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے۔
(البقرة196: 2)
آیت کریمہ میں (فِي الْحَجِّ)
کے الفاظ میں عموم ہے، خواہ یوم النحر سے پہلے ہوں یا اس کے بعد، اس بنا پر ایام تشریق ان میں شامل ہیں۔
(فتح الباري: 309/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1998   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.