الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
22. بَابُ : بَيْعِ الْعُرْبَانِ
22. باب: بیعانہ کا حکم۔
Chapter: Prohibition On Earnest Money
حدیث نمبر: 2192
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، قال: بلغني عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع العربان".
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 69 (3502)، (تحفة الأشراف: 8820)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 1 (1)، مسند احمد (2/183) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ بلاغات مالک میں سے ہے، عمرو بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)

It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grandfather that : the Prophet (ﷺ) forbade the deal involving earnest money .
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   سنن أبي داود3502عبد الله بن عمرونهى عن بيع العربان
   سنن ابن ماجه2192عبد الله بن عمرونهى عن بيع العربان
   سنن ابن ماجه2193عبد الله بن عمرونهى عن بيع العربان
   بلوغ المرام668عبد الله بن عمرونهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن بيع العربان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2193  
´بیعانہ کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں کہ عربان: یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دیدے، اور کہے: اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم: (عربان یہ ہے کہ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر، ورنہ یہ درہم تمہارا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2193]
اردو حاشہ:
فائدہ:
امیر صنعانی رحمہ اللہ سب السلام شرح بلوغ المرام میں اس بیع کی بابت یوں لکھتے ہیں:
اس بیع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے منع کی حدیث کی وجہ سے اسے باطل قرار دیا ہے، اور اس وجہ سے بھی (باطل قرار دیا ہے)
کہ اس میں ناجائز شرط اور دھوکا ہے۔
اور یہ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانے میں شامل ہے۔
یہ رائے صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ بیع فسخ ہونے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم وصول کرتا ہے، اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کرتا۔
اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لے لینا جائز نہیں، علاوہ ازیں بیع واپس کر لینا ثواب ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2199)
اور بیعانہ کی شرط اس لیے لگائی جاتی ہے کہ خریدار خریدی ہوئی چیز واپس نہ کردے، یہ نیکی سے پہلو تہی ہے جسے مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2193   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 668  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ ہی نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے عمرو بن شعیب سے یہ روایت پہنچی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 668»
تخریج:
«أخرجه مالك في الموطأ:2 /609، وانظر سنن ابن ماجه، التجارات، حديث:2192 بتحقيقي، وللحديث شواهد.»
تشریح:
امیر صنعانی رحمہ اللہ بیع عربان کی بابت بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں یوں لکھتے ہیں: اس بیع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے منع کی حدیث کی وجہ سے اسے باطل قرار دیا ہے اور اس وجہ سے بھی باطل قرار دیا ہے کہ اس میں ناجائز شرط اور دھوکا ہے اور یہ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانے میں شامل ہے۔
ہمیں یہی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ بیع فسخ ہونے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم وصول کرتا ہے‘ اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کرتا‘ اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لے لینا جائز نہیں‘ نیز بیعانہ کی یہ شرط اس لیے لگائی جاتی ہے کہ خریدار خریدی ہوئی چیز واپس نہ کر دے‘ یہ نیکی سے پہلو تہی ہے جسے مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا‘ جبکہ احادیث میں خریدی ہوئی چیز کے واپس لینے کی فضیلت ثابت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔
(سنن أبي داود‘ البیوع‘ باب في فضل الإقالۃ‘ حدیث:۳۴۶۰) اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ اور مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھیے: (إرواء الغلیل‘ رقم:۱۳۳۴‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۶۱۴‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۴۰۱‘ ۴۰۲)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 668   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.