الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
23. بَابُ : النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ
23. باب: بیع حصاۃ اور بیع غرر ممنوع ہے۔
Chapter: Prohibition Of Hasah And Gharar Transactions
حدیث نمبر: 2195
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، والعباس بن عبد العظيم العنبري ، قالا: حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ايوب بن عتبة ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر".
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر سے منع کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5967)، ومصباح الزجاجة: 771)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/302) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ایوب بن عتبہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade Gharar transactions. "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   سنن ابن ماجه2195عبد الله بن عباسبيع الغرر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2195  
´بیع حصاۃ اور بیع غرر ممنوع ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر سے منع کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2195]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  دھوکے کی بیع میں وہ سب صورتیں شامل ہیں جن میں خریدی اور بیچی جانے والی چیز کی مقدار کا اندازہ نہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً:
دریا میں مچھلیوں کی فروخت، یا مادہ جانور کے پیٹ کے بچے کی خریدو فروخت۔

(2)
اگر جائز چیز کے ساتھ ضمناً ایسی چیز بھی فروخت ہو رہی ہو جس کی حقیقت معلون نہ ہو تو وہ جائز ہے، مثلاً حاملہ جانور فروخت کیا جائے تو اس کے ساتھ اس کے پیٹ کا بیچ بھی فروخت ہوتا ہے جسے الگ سے فروخت کرنا جائز نہیں لیکن ماں کے ساتھ اس کی بیع درست ہے۔
اس طرح مکان فروخت کرتے وقت اس کی بنیادیں بھی ساتھ ہی فروخت ہو جاتی ہیں، حالانکہ ان کے بارے میں یہ اطمینان کرنا مشکل ہے کہ وہ کتنی گہری اور کتنی موٹی ہیں۔

(3)
  کنکری کی بیع سے مراد لاٹری کی وہ صورتیں ہیں جو اس دور میں رائج تھیں، مثلاً:
دکاندار گاہک سے کہتا کہ تم کنکری پھینکو جس چیز کو وہ کنکری لگے گی، میں وہ چیز تمہیں سو روپے کی دے دوں گا، جب کہ وہ چیزیں مقدار، معیار اور قدرو قیمت کے لحاظ سے مختلف ہویتں۔
آج کے دور میں لاٹری کی بہت سی صورتیں رائج ہیں، جیسے بعض کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کرنے کے لیے انعامی سکیمیں شروع کردیتی ہیں۔
یہ سب کنکری کی بیع کے حکم میں ہیں۔

(4)
  جاہلیت میں کنکری کی بیع کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ تم کنکری پھینکو جہاں تک کنکری پہنچے گی میں اتنی زمین تمہیں فلاں قیمت میں دے دوں گا۔
یہ بھی منع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2195   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.