الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters on Charity
5. بَابُ : الْعَارِيَةِ
5. باب: عاریت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إبراهيم بن المستمر ، حدثنا محمد بن عبد الله ، ح وحدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا ابن ابي عدي جميعا، عن سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" على اليد ما اخذت حتى تؤديه".
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ جَمِيعًا، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاتھ پر واجب ہے کہ جو وہ لے اسے واپس کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 90 (3561)، سنن الترمذی/البیوع 39 (1266)، (تحفة الأشراف: 4584)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/12، 13)، سنن الدارمی/البیوع 56 (2638) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حسن بصری ہیں، جنہوں نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نہیں سنی ہے، کیونکہ انہوں نے صرف سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ سنی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1516)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3561) ترمذي (1266)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 465
   جامع الترمذي1266سمرة بن جندبعلى اليد ما أخذت حتى تؤدي
   سنن أبي داود3561سمرة بن جندبعلى اليد ما أخذت حتى تؤدي ثم إن الحسن نسي فقال هو أمينك لا ضمان عليه
   سنن ابن ماجه2400سمرة بن جندبعلى اليد ما أخذت حتى تؤديه
   بلوغ المرام751سمرة بن جندبعلى اليد ما أخذت حتى تؤديه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2400  
´عاریت کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاتھ پر واجب ہے کہ جو وہ لے اسے واپس کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2400]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہےلیکن یہ بات حق ہے کہ قرض امانت اورعاریتاً لی ہوئی چیز کی واپسی فرض ہے، اس کے دلائل قرآن مجید اوردیگر صحیح احادیث میں موجود ہیں مثلاً:
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
:
﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ﴾  (المومنون 74: 8)
 اور جولوگ اپنی امانتوں اوروعدوں کاخیال رکھتےہیں۔ (وہی مومن کامیاب ہیں۔)
اوردیکھیے(سنن ابن ماجة، حدیث: 2401)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2400   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 751  
´ادھار لی ہوئی چیز کا بیان`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 751»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في تضمين العارية، حديث:3561، والترمذي، البيوع، حديث:1266، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2400، وأحمد:5 /8، 13، والنسائي في الكبرٰي:3 /411، حديث:5783.* قتادة عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن یہ بات حق ہے کہ قرض‘ امانت اور عاریتاً لی ہوئی چیز کی واپسی فرض ہے‘ اس کے دلائل قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث میں موجود ہیں‘ مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ﴾ (المؤمنون۲۳:۸) اور جو لوگ اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں (وہی مومن کامیاب ہیں۔
)
2. ادھار لی ہوئی چیز کی ضمانت و ذمہ داری کس پر ہے؟ عاریتاً لینے والے پر ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں تین قول ہیں: پہلا قول تو یہ ہے کہ بہرصورت اس کی ضمانت و ذمہ داری عاریتاً لینے والے پر ہے‘ خواہ اس کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ زید بن علی‘ عطاء‘ احمد‘ اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت و ذمہ داری کی شرط نہ کی ہوگی تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا جیسا کہ آگے حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آرہا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی وہ ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ خیانت نہ کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 751   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1266  
´عاریت لی ہوئی چیز کو واپس کرنے کا بیان۔`
سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے ۱؎، قتادہ کہتے ہیں: پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے جس نے عاریت لی ہے وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1266]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے،
عاریت لی ہوئی چیزکی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں،
اس بارے میں تین اقوال ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ ہرصورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو،
ابن عباس،
زیدبن علی،
عطاء،
احمد،
اسحاق اورامام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے،
دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہوگی تو اس کی ذمہ داری اس پرعائد نہ ہوگی،
تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کر ے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔

نوٹ:
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں،
اور روایت عنعنہ سے ہے،
اس لیے یہ سند ضعیف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1266   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3561  
´مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا؟`
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لینے والے ہاتھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو مانگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خود سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان (معاوضہ و بدلہ) نہ ہو گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3561]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
اور حق یہ ہے کہ عاریتاً لی ہوئی کوئی چیز ہوجانے پر اس کی ضمان دینی ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3561   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.