جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2708)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 43 (1032)، سنن الدارمی/الفرائض 47 (3168)، وقد مضی برقم: (1508) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق (1508) الربيع بن بدر: متروك وتابعه سفيان الثوري و عنعن وتابعهما إسماعيل بن مسلم المكي: ضعيف وأبو الزبير عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1508
´بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بچہ (پیدائش کے وقت) روئے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1508]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مذکورہ روایت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں۔ ایک بچے کی نماز جنازہ کا، جس کا ذکر گزشتہ روایت میں بھی ہے۔ اور ہمارے فاضل محقق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دوسرا مسئلہ بچے کے وارث ہونے کا ہے۔ یہ مسئلہ سنن ابن ماجہ کی ایک دوسری روایت 2751 میں بھی مروی ہے۔ جسے ہمارے فاضل محقق نے سنداً حسن قرار دیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر روایات کی رو سے قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم: 153، 152)
(2) پیدائش کے وقت بچے کا رونا اس کے زندہ پیدا ہونے کی علامت ہے۔ اس لئے جب وہ زندہ پیدا ہونے کے تھوڑی دیر بعد فوت ہو جائے۔ تو اس کا حکم وہی ہوگا جو طویل عرصہ تک زندہ رہ کرفوت ہونے والے کا ہوگا۔ گزشتہ حدیث کے فوائد ومیں بیان ہوچکا ہے۔ کہ جنازہ نا تمام بچے کا بھی پڑھا جائے گا۔ البتہ وراثت کےلئے شرط ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو یعنی مردہ پیدا ہونے والا بچہ وارث نہیں ہوگا۔ اس لئے اس کی وراثت بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ اگرچہ تخلیق مکمل ہونے پر پیدا ہواہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1508