الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
32. بَابُ النَّجَّارِ:
32. باب: بڑھئی کا بیان۔
(32) Chapter. The carpenter.
حدیث نمبر: 2095
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا عبد الواحد بن ايمن، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه: ان امراة من الانصار، قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا رسول الله، الا اجعل لك شيئا تقعد عليه، فإن لي غلاما نجارا؟ قال: إن شئت، قال: فعملت له المنبر، فلما كان يوم الجمعة قعد النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر الذي صنع، فصاحت النخلة التي كان يخطب عندها، حتى كادت تنشق، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى اخذها فضمها إليه، فجعلت تئن انين الصبي الذي يسكت حتى استقرت، قال: بكت على ما كانت تسمع من الذكر".حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَجْعَلُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُلَامًا نَجَّارًا؟ قَالَ: إِنْ شِئْتِ، قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ قَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ، فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي كَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتَّى كَادَتْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّتُ حَتَّى اسْتَقَرَّتْ، قَالَ: بَكَتْ عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز کیوں نہ بنوا دوں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے وقت بیٹھا کریں۔ کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تمہاری مرضی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب منبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے تیار کیا۔ تو جمعہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھے تو اس کھجور کی لکڑی سے رونے کی آواز آنے لگی۔ جس پر ٹیک دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پھٹ جائے گی۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہی تھی جسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سنا کرتی تھی اس لیے روئی۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: An Ansari woman said to Allah's Apostle, "O Allah's Apostle! Shall I make something for you to sit on, as I have a slave who is a carpenter?" He replied, "If you wish." So, she got a pulpit made for him. When it was Friday the Prophet sat on that pulpit. The date-palm stem near which the Prophet used to deliver his sermons cried so much so that it was about to burst. The Prophet came down from the pulpit to the stem and embraced it and it started groaning like a child being persuaded to stop crying and then it stopped crying. The Prophet said,"It has cried because of (missing) what it use to hear of the religions knowledge."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 308

   صحيح البخاري918جابر بن عبد اللهسمعنا للجذع مثل أصوات العشار حتى نزل النبي فوضع يده عليه
   صحيح البخاري3585جابر بن عبد اللهسمعنا لذلك الجذع صوتا كصوت العشار حتى جاء النبي فوضع يده عليها فسكنت
   صحيح البخاري3584جابر بن عبد اللهصاحت النخلة صياح الصبي ثم نزل النبي فضمه إليه تئن أنين الصبي الذي يسكن قال كانت تبكي على ما كانت تسمع من الذكر عندها
   صحيح البخاري2095جابر بن عبد اللهألا أجعل لك شيئا تقعد عليه صاحت النخلة التي كان يخطب عندها حتى كادت تنشق فنزل النبي حتى أخذها فضمها إليه فجعلت ت
   سنن النسائى الصغرى1397جابر بن عبد اللهاضطربت تلك السارية كحنين الناقة حتى سمعها أهل المسجد حتى نزل إليها رسول الله فاعتنقها فسكتت
   سنن ابن ماجه1417جابر بن عبد اللهحن الجذع قال جابر حتى سمعه أهل المسجد حتى أتاه رسول الله فمسحه فسكن فقال بعضهم لو لم يأته لحن إلى يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2095  
2095. حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟اس لیے کہ میرا غلام بڑھئی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم چاہو تو بنواسکتی ہو۔ "چنانچہ اس عورت نے آپ کے لیے منبر بنوالیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی ﷺ اس منبر پر تشریف فرماہوئے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کھجور کا وہ تنا جس کے پاس آپ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھےآہیں بھر کر چیخنے لگا۔ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے۔ چنانچہ نبی ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگالیا۔ وہ تنا ایسے بچے کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے تاآنکہ وہ خاموش پڑگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کھجور کا تنا اس لیے رویا کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2095]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور منبر پر خطبہ پڑھنے لگے۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم ایک لکڑی سے بھی ظاہر ہوا۔
آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لکڑی کو سینہ سے لگایا تب جا کر اس کا رونا بند ہوا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا سے ثابت فرمایا کہ بڑھئی کا پیشہ بھی کوئی مذموم پیشہ نہیں ہے۔
ایک مسلمان ان میں سے جو پیشہ بھی اس کے لیے آسان ہو اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔
ان احادیث سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ صنعت و حرفت کے متعلق بھی اسلام کی نگاہوں میں ایک ترقی یافتہ پلان ہے۔
بعد کے زمانوں میں جو بھی ترقیات اس سلسلہ میں ہوئی ہیں خصوصاً آج اس مشینی دور میں یہ جملہ فنون کس تیزی کے ساتھ منازل طے کر رہے ہیں بنیادی طور پر یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے مقدس نتائج ہیں۔
اس لحاظ سے اسلام کا یہ پوری دنیائے انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ اس نے دین اور دنیا ہر دو کی ترقی کا پیغام دے کر مذہب کی سچی تصوریر کو بنی نوع انسان کے سامنے آشکارا کیا ہے۔
سچ ہے ان الدین عند اللہ الاسلام (آل عمران: 19)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2095   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2095  
2095. حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟اس لیے کہ میرا غلام بڑھئی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم چاہو تو بنواسکتی ہو۔ "چنانچہ اس عورت نے آپ کے لیے منبر بنوالیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی ﷺ اس منبر پر تشریف فرماہوئے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کھجور کا وہ تنا جس کے پاس آپ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھےآہیں بھر کر چیخنے لگا۔ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے۔ چنانچہ نبی ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگالیا۔ وہ تنا ایسے بچے کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے تاآنکہ وہ خاموش پڑگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کھجور کا تنا اس لیے رویا کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2095]
حدیث حاشیہ:
(1)
بڑھئی کا پیشہ جائز ہے۔
وہ اپنی محنت کی اجرت لیتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ وہ ہاتھ کا عمل ہونے کی وجہ سے بہترین کمائی ہے۔
(2)
عام طور پر یہ حضرات دو طرح سے کام کرتے ہیں:
٭لکڑی وغیرہ مالک کی ہوتی ہے،البتہ بڑھئی دروازے، کھڑکیاں وغیرہ بنانے کی مزدوری لیتا ہے۔
٭وہ لکڑی بھی اپنی طرف سے لگاتا ہےاور اس پر محنت بھی کرتا ہے۔
ایسی صورت میں یہ تجارت اور اجرت ہے۔
اس کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں، البتہ بعض اوقات لکڑی خریدنے کے بعد پتہ چلتا ہےکہ اندر سے بے کار اور کھوکھلی ہے۔
ان حضرات کا محاورہ ہے کہ لکڑی اور ککڑی کو چیرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کس قسم کی ہے۔
خراب نکلنے کی صورت میں بڑھئی کو کافی نقصان ہوتا ہے،اس لیے مالک کو چاہیے کہ وہ بڑھئی کے نقصان کی اخلاقی اعتبار سے تلافی کرے۔
بہر حال بڑھئی کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر تیار کرنے والا ایک بڑھئی غلام تھا۔
آٌپ نے اس کا تیار کردہ منبر استعمال فرمایا اور اس پیشے پر کوئی انکار نہیں کیا۔
ایک مسلمان اسے اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2095   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.