الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Medicine
42. بَابُ : مَنْ كَانَ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ
42. باب: نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔
حدیث نمبر: 3540
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا وكيع , عن ابي جناب , عن ابيه , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى , ولا طيرة , ولا هامة" , فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله , البعير يكون به الجرب , فتجرب به الإبل , قال:" ذلك القدر فمن اجرب الاول".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي جَنَابٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى , وَلَا طِيَرَةَ , وَلَا هَامَةَ" , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الْبَعِيرُ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ , فَتَجْرَبُ بِهِ الْإِبِلُ , قَالَ:" ذَلِكَ الْقَدَرُ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہو جاتی ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (86)، (تحفة الأشراف: 8580، ومصباح الزجاجة: 1235) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں۔
۲؎: اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مر جائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ، تو پھر سب امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ذلك القدر

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   صحيح البخاري5753عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة الشؤم في ثلاث في المرأة والدار والدابة
   صحيح البخاري5772عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاث في الفرس والمرأة والدار
   صحيح البخاري2099عبد الله بن عمرلا عدوى
   صحيح مسلم5805عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاثة المرأة والفرس والدار
   سنن ابن ماجه86عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة أرأيت البعير يكون به الجرب فيجرب الإبل كلها قال ذلكم القدر فمن أجرب الأول
   سنن ابن ماجه3540عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة البعير يكون به الجرب فتجرب به الإبل قال ذلك القدر فمن أجرب الأول

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3540  
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہو جاتی ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3540]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:
اگر ایک اونٹ کو دوسرے سے خارش لگی اوردوسرے کوتیسرے سے تو کوئی اونٹ تو ایسا ہوگا جس کو دوسرے سے نہیں لگی ہوگی۔
تو جس سبب سے وہ بیمار ہوا۔
اسی سبب سے بعد والے بیمار ہوسکتے ہیں۔
خواہ انھیں کوئی بیمار لگے یا نہ لگے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3540   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث86  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 86]
اردو حاشہ:
(1)
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔
عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔
جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔
اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔

(2)
عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔
کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔
اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا:
کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔
کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد)
یا کسی خاص دن (مثلا منگل)
یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال)
کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔
کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

(3)
مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔
وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 86   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.