الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
33. بَابُ : فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ
33. باب: فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔
حدیث نمبر: 4074
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا ابي , حدثنا إسماعيل بن ابي خالد , عن مجالد , عن الشعبي , عن فاطمة بنت قيس , قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم , وصعد المنبر , وكان لا يصعد عليه , قبل ذلك إلا يوم الجمعة , فاشتد ذلك على الناس , فمن بين قائم وجالس , فاشار إليهم بيده ان اقعدوا:" فإني والله ما قمت مقامي هذا لامر ينفعكم , لرغبة ولا لرهبة , ولكن تميما الداري , اتاني فاخبرني خبرا منعني القيلولة , من الفرح وقرة العين , فاحببت ان انشر عليكم فرح نبيكم , الا إن ابن عم لتميم الداري اخبرني ان الريح الجاتهم إلى جزيرة لا يعرفونها , فقعدوا في قوارب السفينة , فخرجوا فيها , فإذا هم بشيء اهدب اسود , قالوا له: ما انت؟ قال: انا الجساسة , قالوا: اخبرينا , قالت: ما انا بمخبرتكم شيئا , ولا سائلتكم , ولكن هذا الدير قد رمقتموه فاتوه , فإن فيه رجلا بالاشواق إلى ان تخبروه ويخبركم , فاتوه فدخلوا عليه , فإذا هم بشيخ موثق شديد الوثاق , يظهر الحزن شديد التشكي , فقال لهم: من اين؟ قالوا: من الشام , قال: ما فعلت العرب؟ قالوا: نحن قوم من العرب , عم تسال؟ قال: ما فعل هذا الرجل الذي خرج فيكم , قالوا: خيرا , ناوى قوما , فاظهره الله عليهم , فامرهم اليوم جميع إلههم واحد ودينهم واحد , قال: ما فعلت عين زغر؟ قالوا: خيرا , يسقون منها زروعهم ويستقون منها لسقيهم , قال: فما فعل نخل بين عمان وبيسان؟ قالوا: يطعم ثمره كل عام , قال: فما فعلت بحيرة الطبرية؟ قالوا: تدفق جنباتها من كثرة الماء , قال: فزفر ثلاث زفرات , ثم قال: لو انفلت من وثاقي هذا , لم ادع ارضا إلا وطئتها برجلي هاتين , إلا طيبة , ليس لي عليها سبيل" , قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إلى هذا ينتهي فرحي , هذه طيبة , والذي نفسي بيده ما فيها طريق ضيق , ولا واسع ولا سهل ولا جبل , إلا وعليه ملك شاهر سيفه إلى يوم القيامة".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ , وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ , وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ , قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ , فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ , فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ , فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنِ اقْعُدُوا:" فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ , لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ , وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ , أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ , مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ , فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ , أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا , فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ , فَخَرَجُوا فِيهَا , فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ , قَالُوا لَهُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ , قَالُوا: أَخْبِرِينَا , قَالَتْ: مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا , وَلَا سَائِلَتِكُمْ , وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ , فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ , فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ , فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ , يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي , فَقَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ؟ قَالُوا: مِنْ الشَّامِ , قَالَ: مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ , عَمَّ تَسْأَلُ؟ قَالَ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ , قَالُوا: خَيْرًا , نَاوَى قَوْمًا , فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ , فَأَمْرُهُمُ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ , قَالَ: مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: خَيْرًا , يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ , قَالَ: فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ , ثُمَّ قَالَ: لَوِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا , لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ , إِلَّا طَيْبَةَ , لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ" , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي , هَذِهِ طَيْبَةُ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ , وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ , إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں)، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 15 (4326، 4327)، سنن الترمذی/الفتن 66 (2253)، (تحفة الأشراف: 18024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/373، 374، 411، 412، 415، 416، 418) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن 24؍ 2942 میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔

وضاحت:
۱؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا:کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں، لڑے، اس نے کہا: پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آ گئے ہیں اور انہوں نے اس رسول (ﷺ) کی اطاعت اختیار کر لی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہو چکی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، یہ بات ہو چکی، اس نے کہا: سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا: شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ)

قال الشيخ الألباني: ضعيف السند صحيح المتن دون الجمل التالية منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , ما أنا بمخبرتكم شيئا ولا سائلتكم , يظهر الحزن شديد التشكي , بين عمان , فزفر ثلاث زفرات , إلى هذا ينتهي فرحي

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4327)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
   صحيح مسلم7386فاطمة بنت قيستميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم عن مسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر ثم أرفئوا إلى جزيرة في البحر حتى مغرب الشمس فجلسوا في أقرب السفينة فدخلوا
   جامع الترمذي2253فاطمة بنت قيسناسا من أهل فلسطين ركبوا سفينة في البحر فجالت بهم حتى قذفتهم في جزيرة من جزائر البحر فإذا هم بدابة لباسة ناشرة شعرها فقالوا ما أنت قالت أنا الجساسة قالوا فأخبرينا قالت لا أخبركم ولا أستخبركم ولكن ائتوا أقصى القرية فإن ثم من يخبركم ويستخبركم فأتينا أقصى ال
   سنن ابن ماجه4074فاطمة بنت قيستميما الداري أتاني فأخبرني خبرا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم ألا إن ابن عم لتميم الداري أخبرني أن الريح ألجأتهم إلى جزيرة لا يعرفونها فقعدوا في قوارب السفينة فخرجوا فيها فإذا هم بشيء أهدب أسود قالوا له ما أنت قال أنا ا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4074  
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4074]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے خط کشیدہ جملوں کے سوا باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث (2942)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
شیخ البانیؒ نے بھی ان خط کشیدہ الفاظ کے سوا باقی روایت کو صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت خط کشیدہ الفاظ کے سوا قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللہ اعلم۔

(2)
رسول اللہﷺ فجر کے بعد بعض اوقات ضروری مسائل بیان فرما دیا کرتے تھے مثلاً:
خوابوں کی تعبیر وغیرہ۔
لیکن منبر پر بیٹھ کر فجر کے بعد خطبہ دینے کا معمول نہیں تھا۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے خوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ بھی دجال سے ڈرایا کرتے تھے۔
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی مزید تصدیق ہوگئی۔
صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:
اس نے مجھے ایک بات سنائی جو اس کے موافق ہے جو میں تمھیں مسیح دجال کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ (صحيح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حديث: 2942)

(4)
جساسہ کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:
اس کے جسم پر اتنے بال تھے کہ بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کے آگے پیچھے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔

(5)
عمان اور بیسان شام کے دو شہر ہیں عمان موجودہ اردن کا دارالحکومت ہے۔

(6)
زغر شام کا ایک شہر ہے۔
اس کے قریب ایک چشمہ ہے۔
بحیرہ طبریہ شام میں ہے۔

(7)
مدینہ منورہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا لیکن مدینے میں تین بار زلزلہ آئے گا تو مدینہ میں موجود تمام کافر اور منافق مدینہ سے نکل کر دجال سے جا ملیں گے۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث: 7124)

(8)
دجال مکہ مکرمہ میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حدیث: 2942)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4074   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2253  
´جساسہ کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا: تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2253]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
حدیث جسّاسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں کتاب الفتن کا مطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2253   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.