الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
32. بَابُ : ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى
32. باب: قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4267
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن إسحاق , حدثني يحيى بن معين , حدثنا هشام بن يوسف , عن عبد الله بن بحير , عن هانئ مولى عثمان , قال: كان عثمان بن عفان إذا وقف على قبر يبكي حتى يبل لحيته , فقيل له: تذكر الجنة والنار , ولا تبكي وتبكي من هذا , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن القبر اول منازل الآخرة , فإن نجا منه فما بعده ايسر منه , وإن لم ينج منه فما بعده اشد منه" , قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما رايت منظرا قط إلا والقبر افظع منه".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق , حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ , عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ , قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ يَبْكِي حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ , فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ , وَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ , فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ , وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ" , قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ".
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 5 (2308)، (تحفة الأشراف: 9839)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/63) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
   جامع الترمذي2308عثمان بن عفانالقبر أول منزل من منازل الآخرة فإن نجا منه فما بعده أيسر منه وإن لم ينج منه فما بعده أشد منه
   سنن ابن ماجه4267عثمان بن عفانالقبر أول منازل الآخرة فإن نجا منه فما بعده أيسر منه وإن لم ينج منه فما بعده أشد منه ما رأيت منظرا قط إلا والقبر أفظع منه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 2308  
´قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز`
«. . . إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے . . . [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/باب مِنْهُ: 2308]

فوائد و مسائل:
موت کے بعد آخروی زندگی شروع ہوتی ہے، جو دراصل جزا و سزا کا جہان ہے۔ جو شخص اس جہان میں چلا جاتا ہے، اس کا دنیا والوں سے کوئی دنیوی تعلق قائم نہیں رہتا، کیونکہ اخروی زندگی ایک الگ زندگی ہے۔ قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز ہے۔

بہت سے لوگ اس اخروی زندگی کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے ہیں۔ بعض نے تو تفریط میں مبتلا ہو کر سرے سے اس زندگی کا انکار کر دیا ہے، جبکہ بعض نے افراط میں پڑ کر اس زندگی کا اس طرح اقرار کیا کہ اسے دنیوی زندگی کی مثل سمجھ لیا۔ لیکن یہ عام زندگی جو سب کو ملتی ہے، ایک مخصوص نعرہ لگا کر انہوں نے اسے بلادلیل خاص کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں اعتدال کی بات وہی ہے، جو ہمیں قرآن و سنت نے بتائی ہے۔ شرعی دلائل کے مطابق قبر کی زندگی نیک و بد سب کو ملتی ہے، البتہ درجات کے اعتبار سے اس زندگی کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ انبیا و شہدا کی زندگی افضل ترین اور کفار کی بدترین ہوتی ہے، لیکن بہرحال یہ زندگی اخروی ہوتی ہے، دنیوی نہیں، جیسا کہ:
❀ ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو وہاں اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن آپ نہیں روتے، مگر قبر کا ذکر سنتے ہی رو پڑتے ہیں؟ اس پر آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: بےشک قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی شخص اس منزل کو کامیابی سے عبور کر گیا، تو اس کے بعد جو بھی منزل آئے گی، اس سے آسان تر ہی ہو گی لیکن اگر کوئی اسی منزل میں کامیاب نہ ہو سکا، تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ [مسند الام احمد: 63/1، سنن ترمذي 2308، سنن ابن ماجه 4267، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن، جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ [331، 330/4] نے صحیح الاسناد اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
↰ اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آ رہی ہے کہ موت کی صورت میں دنیوی زندگی ختم ہونے کے فورا بعد آخرت کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ قبر آخرت کی ایک منزل ہے اور اس کی زندگی اخروی زندگی ہے، نہ کہ دنیوی۔

❀ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مسواک چھوٹ گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کو اس دن ایک ساتھ جمع کر دیا، جو آپ کی دینوی زندگی کا آخری اور اخروی حیات کا پہلا دن تھا۔ [صحیح بخاری: 4451]
↰ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی اس سلسلے میں بالکل صریح ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔
لہٰذا قبر کی زندگی کے جو حالات قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان کا انکار کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ اس سے بھی بڑی جہالت یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی یا اس سے مشابہ مانا جائے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث\صفحہ نمبر: 4   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 132  
´قبر سے زیادہ وحشت ناک منظر کوئی نہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عُثْمَان رَضِي الله عَنهُ أَنه إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ فَقِيلَ لَهُ تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْت منْظرًا قطّ إِلَّا الْقَبْر أَفْظَعُ مِنْهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيث غَرِيب . . .»
. . . سیدنا عثمان رضى اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو دیر تک آنسو بہا کر روتے۔ یہاں تک کہ آپ اپنی ریش مقدس کو آنسوؤں سے تربز کر دیتے، ان سے کہا گیا: آپ جنت و دوزخ کو ذکر کرتے ہیں اور اس کے ذکر سے نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر کیوں روتے ہیں؟ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر اس منزل سے کسی کو نجات حاصل ہو گئی تو پھر اس کے بعد اس کے لیے آسانی ہی آسانی ہے اور اگر اس منزل سے نجات نہیں پائی۔ تو اس کے لیے اس کے بعد دشواری ہی دشواری ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر سے زیادہ خطرناک منظر کبھی نہیں دیکھا یعنی قبر کا منظر بہت خوفناک و دہشت ناک ہے۔ اس حدیث کو ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 132]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اسے ترمذی نے حسن غریب اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [تلخیص المستدرک 1؍371]
◄ اس حدیث کی سند میں ابوسعید ہاننی البربری (مولیٰ عثمان رضی اللہ عنہ) صدوق راوی ہیں۔ [تقریب التہذیب: 7266]
◄ دوسرے راوی عبداللہ بن بحیر بن ریسان ابووائل القاص الصنعانی جمہور محدثین کے نزیدیک موثق ہیں،
لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [تهذيب الكمال 33/10] وغیرہ اور باقی سند صحیح ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ آخرت کی یاد کے لئے قبروں کی زیارت کرنا مسنون ہے۔
➋ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔
➌ موت کو یاد کر کے اللہ کے خوف سے رونا خلفائے راشدین کی سنت ہے۔
➍ تکبر سے ہمیشہ دور رہ کر ساری زندگی عاجزی کے ساتھ گزارنی چاہئیے۔
➎ اہل ایمان کا دل ہر وقت خوف اور امید کے درمیان رہتا ہے۔
➏ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی عذابِ قبر کو ثابت سمجھتے تھے اور اس سے مراد یہی زمینی قبر ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 132   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4267  
´قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔`
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4267]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کے خوف سے رونا ایمان کی نشانی ہے۔

(2)
قبر سے نجات کا مطلب قبر میں سوال جواب کا مرحلہ خیریت سے طے ہوجانا ہے۔
اگر سوالوں کے صحیح جواب دینے کی توفیق مل گئی تو قیامت کے مراحل بھی آسان ہوجایئں گے۔
ورنہ قیامت کے سخت مراحل قبر کی نسبت زیادہ ہولناک ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان سے محفوظ رکھے۔

(3)
قبر کو سب سے خوفناک منظر دنیا کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ جہنم کے عذاب کا منظر اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4267   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.