Narrated Jabir: Allah's Apostle gave preemption (to the partner) in every joint property, but if the boundaries of the property were demarcated or the ways and streets were fixed, then there was no pre-emption.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 415
● صحيح البخاري | 2496 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2213 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 6976 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2495 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح مسلم | 4129 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه |
● صحيح مسلم | 4128 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● جامع الترمذي | 1369 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● جامع الترمذي | 1312 | جابر بن عبد الله | من كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه |
● سنن أبي داود | 3514 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن أبي داود | 3513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن أبي داود | 3518 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● سنن النسائى الصغرى | 4709 | جابر بن عبد الله | الشفعة والجوار |
● سنن النسائى الصغرى | 4705 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● سنن النسائى الصغرى | 4650 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن ابن ماجه | 2499 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن ابن ماجه | 2494 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● المعجم الصغير للطبراني | 513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع |
● بلوغ المرام | 763 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● مسندالحميدي | 1309 | جابر بن عبد الله | أيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔
(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔
(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2213
2213. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر غیر تقسیم شدہ مال میں حق شفعہ قائم رکھا ہے لیکن جب تقسیم ہونے کے بعد حدیں واقع ہو جائیں اور راستے بدل جائیں تو شفعہ ساقط ہوجاتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2213]
حدیث حاشیہ:
مال سے مراد غیر منقولہ ہے۔
جیسے مکان، زمین، باغ وغیرہ کیوں کہ جائیداد منقولہ میں بالاجماع شفعہ نہیں ہے اور عطاءکا قول شاذ ہے جو کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے۔
یہاں تک کہ کپڑے میں بھی۔
یہ حدیث شافعیہ کے مذہب کی تائید کرتی ہے کہ ہمسایہ کو شفعہ کا حق نہیں ہے صرف شریک کو ہے۔
یہاں امام بخاری ؒنے یہ حدیث لاکر باب کا مطلب اس طرح سے نکالا ہے کہ جب شریک کو شفعہ کا حق ہوا تو وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے گا۔
پس ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کے ہاتھ بیع کرنا بھی جائز اور یہی ترجمہ باب ہے۔
شفعہ اس حق کو کہا جاتا ہے جو کسی پڑوسی یا کسی ساجھی کو اپنے دوسرے پڑوسی یا ساجھی کی جائیداد میں اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ ساجھی یا پڑوسی اپنی اس جائیداد کو فروخت نہ کردے۔
شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسی جائیداد کی خرید و فروخت میں حق شفعہ رکھنے والا اس کا مجاز ہے کہ جائیداد اگر کسی غیر نے خرید لی تو وہ اس پر دعویٰ کرے اور وہ بیع اول کو فسخ کرا کر خود اسے خرید لے ایسے معاملات میں اولیت حق شفعہ رکھنے والے ہی کو حاصل ہے۔
باقی اس سلسلہ کی بہت سی تفصیلات ہیں۔
جن میں سے کچھ حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں احادیث کی روشنی میں بیان بھی کر دی ہیں۔
مروجہ محمڈن لاء (بھارت)
میں اس کی بہت سی صورتیں مذکور ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2213
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2213
2213. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر غیر تقسیم شدہ مال میں حق شفعہ قائم رکھا ہے لیکن جب تقسیم ہونے کے بعد حدیں واقع ہو جائیں اور راستے بدل جائیں تو شفعہ ساقط ہوجاتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2213]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مال سے مراد غیر منقولہ جائیداد ہے،مثلاً:
مکان، زمین اور باغ وغیرہ کیونکہ منقول جائیداد میں بالاتفاق کسی کو شفعے کا حق نہیں۔
(2)
ابن بطال ؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ کا مقصد مشترک چیز کی خریدوفروخت کا جواز ثابت کرنا ہے، یعنی یہ بیع اجنبی کی بیع کی طرح صحیح ہوگی۔
دوسرے حضرات فرماتے ہیں:
عنوان سے مقصود شریک کو ترغیب دینا ہے کہ اگر وہ اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو شریک کے پاس بیچے کیونکہ اگر کسی دوسرے کو فروخت کرے گا تو شریک کو شفعے کا حق ہوگا۔
(فتح الباري: 515/4)
علامہ عینی فرماتے ہیں:
اس عنوان کی غرض شریک کو رغبت دلانا ہے کہ اگر وہ اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو اسے شریک کے پاس فروخت کرے کیونکہ جب شریک فروخت کردہ حصہ بذریعہ عدالت لے سکتا ہے تو رضامندی سے اسے فروخت کرنا زیادہ بہتر ہے،ایسا کرنا اس کی خوش دلی کا باعث ہے۔
(عمدة القاري: 521/8)
واضح رہے کہ شفعے کے متعلق احکام ومسائل آئندہ کتاب الشفعہ میں بیان ہوں گے۔
بإذن الله.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2213