الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
97. بَابُ بَيْعِ الأَرْضِ وَالدُّورِ وَالْعُرُوضِ مُشَاعًا غَيْرَ مَقْسُومٍ:
97. باب: زمین، مکان، اسباب کا حصہ اگر تقسیم نہ ہوا ہو تو اس کا بیچنا درست ہے۔
(97) Chapter. The sale of undivided common land, buildings and belongings.
حدیث نمبر: 2214
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد اللهرضي الله عنه، قال:" قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل مال لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَالٍ لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے مال میں شفعہ کا حق قائم رکھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن جب اس کی حدود قائم ہو گئی ہوں اور راستہ بھی پھیر دیا گیا ہو تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle decided the validity of preemption in every joint undivided property, but if the boundaries were well marked or the ways and streets were fixed, then there was no pre-emption. Narrated Mussaddad from `Abdul Wahid: the same as above but said, "... in every joint undivided thing..." Narrated Hisham from Ma`mar the same as above but said, " ... in every property... "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 416, 417

   صحيح البخاري2214جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2257جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   جامع الترمذي1370جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   بلوغ المرام760جابر بن عبد اللهفإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1370  
´جب حد بندی ہو جائے اور حصے تقسیم ہو جائیں تو شفعہ نہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو شفعہ نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1370]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو،
محض پڑوسی ہو نا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں،
یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت وصواب سے قریب تربھی ہے،
حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پربھی شفعہ جائزہے،
ان کی دلیل حدیث نبوی جار الدار أحق بالدار ہے۔

2؎:
جمہوراس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے،
مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے،
جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1370   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2214  
2214. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حق شفعہ ہر اس مال میں قائم رکھا ہے جو تقسیم نہ ہوا ہو، جب حدود قائم ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر شفعہ نہیں ہے۔ عبدالواحد کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ حق شفعہ ہر غیر منقسم چیز میں ہے۔ معمر سے روایت کرنے میں ہشام نے عبدالواحد کی متابعت کی ہے۔ عبدالرزاق نے بایں الفاظ اس روایت کو بیان کیا ہے کہ حق شفعہ ہر اس مال میں ہے (جو تقسیم شدہ نہ ہو) اس روایت کو عبدالرحمان بن اسحاق نے بھی امام زہری سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2214]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان میں امام بخاری ؒ نے زمین اور گھروں کے ساتھ عروض کا لفظ بھی شامل کیا ہے،اس کے معنی ہیں:
اسباب وسامان وغیرہ۔
جب اس میں دوسرے شریک ہوں تو ان کے ہاتھ بھی فروخت کیا جاسکتا ہے، مثلاً:
ایک گھوڑے میں اگر دوشریک ہیں تو ایک شریک کو چاہیے کہ وہ دوسرے شریک کو پیش کش کرے کہ وہ پورا گھوڑا خرید لے۔
اگر وہ ایسا نہ کرے تو جس قیمت میں وہ فروخت ہوا ہے، اس میں سے دوسرے شریک کو حصہ دے۔
(2)
آخر میں امام بخاری ؒ نے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے، لیکن یہ اختلاف حدیث کے مفہوم پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2214   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.