الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شفعہ کے بیان میں
The Book of Pre- Emption
1. بَابُ الشُّفْعَةُ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فَلاَ شُفْعَةَ:
1. باب: شفعہ کا حق اس جائیداد میں ہوتا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حد بندی ہو جائے تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔
(1) Chapter. Shufa (pre-emption) is valid if the property is undivided, but if the limits become defined, then there is no pre-emption.
حدیث نمبر: 2257
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود، وصرفت الطرق فلا شفعة".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ، وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle gave a verdict regarding Shuf'a in every undivided joint thing (property). But if the limits are defined (or demarcated) or the ways and streets are fixed, then there is no pre-emption.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 35, Number 458

   صحيح البخاري2214جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2257جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   جامع الترمذي1370جابر بن عبد اللهإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   بلوغ المرام760جابر بن عبد اللهفإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1370  
´جب حد بندی ہو جائے اور حصے تقسیم ہو جائیں تو شفعہ نہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو شفعہ نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1370]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو،
محض پڑوسی ہو نا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں،
یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت وصواب سے قریب تربھی ہے،
حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پربھی شفعہ جائزہے،
ان کی دلیل حدیث نبوی جار الدار أحق بالدار ہے۔

2؎:
جمہوراس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے،
مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے،
جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1370   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2257  
2257. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2257]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر شریک نے شفیع کو بیع کی خبر دی اور اس نے بیع کی اجازت دی پھر شریک نے بیع کی تو شفیع کو حق شفعہ نہ پہنچے گا اور اس میں اختلاف ہے کہ بائع کو شفیع کا خبر دینا واجب ہے یا مستحب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2257   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2257  
2257. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2257]
حدیث حاشیہ:
(1)
شفعے کے لغوی معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے ملالینے کے ہیں۔
چونکہ شفعہ کرنے والا اپنی ملکیت کے ساتھ دوسرے کی ملکیت کو حاصل کرکے ملالیتا ہے، اس لیے اس فعل کو شفعہ کہا جاتا ہے۔
اصطلاحی طور پر شفعے سے مراد مشتری سے اس کی رضامندی کے بغیر خرید کردہ چیز کو اس قیمت پر حاصل کرنا ہے جس قیمت میں مشتری نے اسے اصل مالک سے خریدا تھا۔
(2)
شفعے کے بالترتیب تین اسباب حسب ذیل ہیں:
٭ شرکتِ ملکیت:
ایک شخص فروخت کردہ مشفوعہ جائیداد کی ذات میں شریک ہو جیسا کہ دویا دوسے زیادہ آدمی غیر منقسم زمین یا مکان میں شریک ہوں۔
٭ شرکتِ حق:
دویا دو سے زیادہ اشخاص فروخت کردہ جائیداد کی ذات کے بجائے اس کے حقوق میں شریک ہوں، مثلاً:
حق گزر یا حق سیرابی وغیرہ۔
٭ ہمسائیگی:
شفعہ کرنے والے کا مکان فروخت کردہ جائیداد سے متصل ہو۔
(3)
شفعہ خلاف اصل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسے مشتری کی ملک سے چھین کر اس کی رضامندی کے بغیر اسے معاوضہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، تاہم شریعت نے بعض مصالح کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے، اس لیے مطلق طور پر اسے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ پیش کردہ حدیث کے مطابق شفعے کےلیے ضروری ہے کہ وہ جائیداد مشترک ہواور اسے تقسیم نہ کیا گیا ہو۔
اگر جائیداد تقسیم ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
٭وہ ایسی جائیداد ہو جو فروخت کرنے والے کی ملکیت غیر منقولہ ہو۔
منقولہ جائیداد فروخت کرنے میں کوئی شفعہ نہیں ہوگا، مثلاً:
حیوانات، اناج یا پھل وغیرہ۔
٭شفعہ کرنے والے کی وہ جائیداد جس کی وجہ سے اسے شفعے کا حق حاصل ہورہا ہے اس کی اپنی مملوکہ ہو۔
وقف کی اراضی یا حکومت کی جائیداد پر کسی کو شفعے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
٭ شفعے کا حق اس وقت حاصل ہوگا جب کوئی جائیداد بذریعہ عقد بیع قطعی طور پر منتقل کی گئی ہو۔
اس بنا پر ہبہ، وراثت یا صدقے کے ذریعے سے ملنے والی چیز پر شفعہ نہیں ہوگا۔
٭اس کا مطالبہ بھی فوری ہونا چاہیے۔
جب علم ہونے کے بعد خاموشی اختیار کی جائے تو اس سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے لیکن سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق شفعہ صرف زمین کے ساتھ خاص ہے۔
(فتح الباري: 551/4)
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے، مثلاً:
زمین، دوکان یا باغ وغیرہ۔
انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے فروخت کرے یہاں تک کہ اس کا شریک اس کی اجازت دے۔
اگر وہ چاہے تو خود رکھ لے، چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے۔
اس کی اجازت کے بغیر اگر اسے فروخت کردیا گیا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 4127(1608)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2257   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.