الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
The Book of the Masjids
18. بَابُ : ضَرْبِ الْخِبَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ
18. باب: مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 710
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعلى، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا اراد ان يعتكف صلى الصبح ثم دخل في المكان الذي يريد ان يعتكف فيه، فاراد ان يعتكف العشر الاواخر من رمضان، فامر فضرب له خباء، وامرت حفصة فضرب لها خباء، فلما رات زينب خباءها امرت فضرب لها خباء، فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" آلبر تردن؟" فلم يعتكف في رمضان واعتكف عشرا من شوال.
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الصُّبْحَ ثُمَّ دَخَلَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ، فَأَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَمَرَ فَضُرِبَ لَهُ خِبَاءٌ، وَأَمَرَتْ حَفْصَةُ فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ، فَلَمَّا رَأَتْ زَيْنَبُ خِبَاءَهَا أَمَرَتْ فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" آلْبِرَّ تُرِدْنَ؟" فَلَمْ يَعْتَكِفْ فِي رَمَضَانَ وَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟ ۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتکاف 6 (2033)، 7 (2034)، 14 (2041)، 18 (2045)، صحیح مسلم/الاعتکاف 2 (1172)، سنن ابی داود/الصوم 77 (2464)، سنن الترمذی/الصوم 71 (791) مختصراً، سنن ابن ماجہ/الصوم 59 (1771)، (تحفة الأشراف: 17930)، مسند احمد 6/84، 226 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تم لوگوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ خیمے لگائے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري2041عائشة بنت عبد اللهيعتكف في كل رمضان وإذا صلى الغداة دخل مكانه الذي اعتكف فيه قال فاستأذنته عائشة أن تعتكف فأذن لها فضربت فيه قبة فسمعت بها حفصة فضربت قبة وسمعت زينب بها فضربت قبة أخرى فلما انصرف رسول الله من الغداة أبصر أربع قباب فقال ما هذا فأخبر خبرهن فقال ما حملهن على ه
   صحيح البخاري2045عائشة بنت عبد اللهيعتكف العشر الأواخر من رمضان فاستأذنته عائشة فأذن لها وسألت حفصة عائشة أن تستأذن لها ففعلت فلما رأت ذلك زينب ابنة جحش أمرت ببناء فبني لها قالت وكان رسول الله إذا صلى انصرف إلى بنائه فبصر بالأبنية فقال ما هذا قالوا بناء عائشة وحفصة وزينب فقال رسول الله آلب
   صحيح البخاري2034عائشة بنت عبد اللهأراد أن يعتكف فلما انصرف إلى المكان الذي أراد أن يعتكف إذا أخبية خباء عائشة وخباء حفصة وخباء زينب فقال ألبر تقولون بهن ثم انصرف فلم يعتكف حتى اعتكف عشرا من شوال
   صحيح البخاري2033عائشة بنت عبد اللهيعتكف في العشر الأواخر من رمضان فكنت أضرب له خباء فيصلي الصبح ثم يدخله فاستأذنت حفصة عائشة أن تضرب خباء فأذنت لها فضربت خباء فلما رأته زينب ابنة جحش ضربت خباء آخر فلما أصبح النبي رأى الأخبية فقال ما هذا فأخبر فقال النبي آلبر ترون بهن فترك الاعتكاف ذلك الش
   صحيح مسلم2785عائشة بنت عبد اللهإذا أراد أن يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفه وإنه أمر بخبائه فضرب أراد الاعتكاف في العشر الأواخر من رمضان فأمرت زينب بخبائها فضرب وأمر غيرها من أزواج النبي بخبائه فضرب فلما صلى رسول الله الفجر نظر فإذا الأخبية فقال آلبر تردن فأمر بخبائه فقوض وترك الاعتكاف في
   سنن أبي داود2464عائشة بنت عبد اللهإذا أراد أن يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفه قالت وإنه أراد مرة أن يعتكف في العشر الأواخر من رمضان قالت فأمر ببنائه فضرب فلما رأيت ذلك أمرت ببنائي فضرب قالت وأمر غيري من أزواج النبي ببنائه فضرب فلما صلى الفجر نظر إلى الأبنية فقال ما هذه آلبر تردن قالت فأمر ب
   سنن النسائى الصغرى710عائشة بنت عبد اللهآلبر تردن فلم يعتكف في رمضان واعتكف عشرا من شوال
   سنن ابن ماجه1771عائشة بنت عبد اللهإذا أراد أن يعتكف صلى الصبح ثم دخل المكان الذي يريد أن يعتكف فيه فأراد أن يعتكف العشر الأواخر من رمضان فأمر فضرب له خباء فأمرت عائشة بخباء فضرب لها وأمرت حفصة بخباء فضرب لها فلما رأت زينب خباءهما أمرت بخباء فضرب لها فلما رأى ذلك رسول الله قال آلبر تردن فل
   بلوغ المرام571عائشة بنت عبد اللهإذا اراد ان يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفة
   مسندالحميدي196عائشة بنت عبد اللهأراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يعتكف العشر الأواخر من شهر رمضان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 710  
´مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟ ۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 710]
710 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اعتکاف ایک عبادت ہے اور بغیر پردے کے ممکن نہیں، لہٰذا خیمہ کھڑا کرنا ضروری ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ایک سے زائد تھیں اور بتقاضائے بشریت سوکنویں میں چپقلش ہوتی ہے، اسی چپقلش کے نتیجے میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے خیمہ لگوایا کہ میں اس سعادت سے پیچھے کیوں رہوں؟ اللہ! اللہ! نیک لوگوں کی چشمک بھی نیکی کے اضافے کے لیے ہوتی ہے، مگر آپ نے اس چشمک کو برداشت نہ کیا، اس لیے آپ نے خود بھی اعتکاف کا ارادہ موقوف فرما دیا۔
➌ اگر کوئی اعتکاف کا ارادہ و نیت کر لے مگر کوئی رکا وٹ پیش آ جائے تو مناسب ہے کہ قضا دے، خواہ رمضان المبارک کے بعد ہی ہو۔
➍ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے اٹھوانے کی اصل وجہ امہات المؤمنین کی آپس کی چشمک اور منافست تھی جس کا حدیث سے اشارہ ملتا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ حکم عورتوں کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی وجہ سے تھا، بالخصوص جبکہ مردوں سے اختلاط کا بھی اندیشہ ہو اگرچہ وہاں خاوند بھی معتکف ہو۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اگر عدم جواز کی بات ہوتی تو انہیں آغاز ہی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم روک دیتے اور آخر میں یہ نہ فرماتے …… کیا یہ نیکی کا ارادہ رکھتی ہیں……؟
➎ احناف میں عورتوں کے گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج ہے، لیکن یہ بلادلیل ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے اعتکاف صرف مسجد ہی میں ہو سکتا ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا عمل بھی اسی کا مؤید ہے، اس لیے عورت مسجد ہی میں اعتکاف بیٹھے، گھر میں نہیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنے کا خدشہ نہ ہو۔ آج کل بعض بڑی مرکزی مسجدوں میں عورتوں کے لیے ایسا محفوظ انتظام کر دیا گیا ہے کہ وہاں مردوں سے اختلاط بھی نہیں ہوتا اور ان کی عزت و عصمت کو بھی خطرہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسی جگہوں پر اس کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 710   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1771  
´اعتکاف شروع کر کے چھوڑ دینے پر اس کی قضاء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے (بھی) ایک خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کا خیمہ دیکھا تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ لگایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1771]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کے لئے مسجد میں ایک جگہ پردہ کر کے اس میں اعتکاف کرنا مسنون ہے
(2)
اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے۔

(3)
عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں لیکن ان کے لئے بھی جائے اعتکا ف مسجد ہی ہے تا ہم مسجد ایسی ہو جہا ں عورتو ں کے لئے مردوں سے الگ ہر چیز کا معقول انتظام ہو تاکہ مردوں کے ساتھ کسی مرحلے میں ان کا اختلاط نہ ہو۔

(4)
عورتوں میں ایک دوسری کی ریس کرنے کی عادت ہوتی ہے خاص طور پر سوکنیں ایک دوسری سے رشک رکھتی ہیں اگر اس سے کوئی مسئلہ پیدا ہو جا ئےتو اسے حکمت سے حل کر لینا چاہیئے
(5)
  اعتکا ف کا پختہ ارادہ کر کے مسجد میں جگہ بنالی گئی ہو پھر کوئی عذر پیش آ جا ئے تو اعتکا ف چھوڑا جا سکتا ہے
(6)
رمضان کے اعتکاف کی قضا کسی دوسرے مہینے میں بھی دی جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1771   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 571  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
انہی (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعتکاف کرتیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 571]
571 لغوی تشریح:
«صَلَّي الْفَجَرْ» صبح کی نماز پڑھتے، اکیس رمضان کی نماز فجر مراد ہے۔
«ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ» اسم ظرف کا صیغہ ہے، یعنی اپنے اعتکاف کی جگہ۔ نماز فجر کے بعد آپ اس جگہ میں سب سے منقطع ہو کر علیحدگی اختیار کر لیتے، یہ مطلب نہیں کہ یہ وقت اعتکاف کی ابتداء کا ہے بلکہ اعتکاف کے لیے تو آپ اکیس کی نماز مغرب ہی مسجد میں پڑھتے اور اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رات گزارتے، جب صبح کی نماز پڑھتے تو اعتکاف کی مخصوص جگہ میں تشریف لے جاتے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ اس حدیث کی یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ اس حدیث اور بعد والی احادیث میں تطبیق دی جا سکے جس میں یہ وضاحت ہے کہ آپ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے تھے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 571   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2464  
´اعتکاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرنے کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، تو خیمہ لگانے کا حکم دیا، خیمہ لگا دیا گیا، جب میں نے اسے دیکھا تو اپنے لیے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا، اسے بھی لگایا گیا، نیز میرے علاوہ دیگر ازواج مطہرات نے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا تو لگایا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی تو ان خیموں پر آپ کی نگاہ پڑی آپ نے پوچھا: یہ کیا ہیں؟ کیا تمہارا مقصد اس سے نیکی کا ہے؟ ۱؎، پھر آپ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2464]
فوائد ومسائل:
(1) اعتکاف کے لیے حجرہ بنانا اس لیے مستحب ہے کہ معتکف اس جگہ میں دیگر لوگوں سے علیحدہ ہو کر نوافل، تلاوت قرآن کریم اور اذکار وغیرہ میں مشغول رہے۔
یہ لوگوں کے ساتھ بلا ضرورت اختلاط کرے، نہ دوسرے ہی اس کو مشغول کریں۔

(2) خواتین کو بھی مساجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔
گھروں میں اعتکاف کرنا خیرالقرون سے ثابت نہیں۔
گھر میں مقام عبادت کو اصطلاحا مسجد نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس پر معروف مسجد والے احکام ہی منطبق ہوتے ہیں۔

(3) اعمال میں خیر میں بنیادی طور پر اخلاص اور اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہونی چاہیے۔
ازواج مطہرات کے مذکورہ بالا عمل میں رشک کا پہلو غالب تھا جو اگرچہ عام افراد امت کے لیے تو محمود ہے، مگر ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان سے بالا تر ہے۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور یہی معنی ہین اس معروف قول کے کہ (حسنات الأبرار سيئات المقربين) یعنی عام صالحین کے عام صالح اعمال بعض اوقات مقرب لوگوں کے حق میں ریب اور تقصیر شمار کیے جاتے ہیں۔

(4) شوہر اگر راضی نہ ہو تو عورت کو اپنا اعتکاف ختم کر دینا چاہیے۔

(5) فوت شدہ یا توڑے گئے اعتکاف کی قضا دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔
جیسے کہ ازواج مطہرات کے متعلق اس قسم کا کوئی بیان نہیں ہے کہ ان سے اس اعتکاف کی قضا کروائی گئی۔
(6) غیر رمضان میں اعتکاف کے دوران میں روزہ شرط نہیں ہے۔

(7) اعتکاف کا آغاز کب سے کرنا ہے؟ احادیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔
اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہوتے۔
دوسری روایات میں ہے کہ آپ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔
اس اعتبار سے اکثر علماء یہ کہتے ہین کہ معتکف 20 رمضان کو مغرب سے پہلے پہلے مسجد میں آ جائے، رات مسجد میں گزارے اور فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہو جائے۔
اس طرح کرنے سے اس کا رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کے ساتھ گزرے گا اور مذکورہ دونوں رواتیوں پر عمل ہو جائے گا۔
اس کے برعکس بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیسیوں رمضان کو فجر کی نماز کے بعد اعتکاف کا آغاذ کیا جائے، کیونکہ حدیث میں آپ کے نمازِ فجر کے بعد حجرہ اعتکاف میں داخل ہونے کی صراحت ہے۔
لیکن اس طرح 30 رمضان ہونے کی صورت میں اعتکاف کے 11 دن بن جاتے ہیں جسے عشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل عشرہ اخیر کا اعتکاف کا منقول ہے اس لیے پہلے رائے ہی راجح اور صحیح ہے۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2464   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.